دوسروں کی نہیں صرف اپنی سنیے

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 19 اگست 2022
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

عظیم ادیب اناطول فرانس کے نزدیک کوئی ادیب یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ نئی بات کہہ رہا ہے، دراصل جتنی باتیں کہنے کی تھیں وہ سب پہلے ہی کہی جاچکی ہیں۔ تمام دنیا کے ادیبوں میں تصورات قدر مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتا ہے ’’جب راستے پر پھول پڑے ہوں تو یہ پوچھنے کی حاجت نہیں کہ وہ راستہ کدھر جاتا ہے؟ میں تمہیں یہ مشورہ اعلیٰ دانشمندی کے موافق اور دانش مندی کے خلاف دے رہا ہوں۔ انسان کے سب مقاصد پوشیدہ ہوتے ہیں۔

میں نے خود اپنا راستہ ہر ایک سے پوچھا۔ پادری سے عالم لوگوں سے لفظوں کا جادو جگانے والے فلسفیوں سے جونا معلوم کے جغرافیہ کو جاننے کے دعوے دار ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی مجھے ٹھیک راستہ نہیں بتا سکا۔ اب میں نے جس راستے کو اپنے لیے پسند کیا ہے، اس میں مسکراتے ہوئے آسمان کے تلے گھنے درخت ہیں ، جس کا جذبہ مجھے اس راستے پر کشاں کشاں لیے جا رہا ہے ، بھلا حسن سے بہتر رہبر کون مل سکتا ہے؟ ‘‘ انگریزی ادب سے ایک اقتباس ہے۔ ’’اسپتال کے بیڈ روم پر دم توڑتے ایک بزرگ نے اپنے معالج سے کہا ڈاکٹر صاحب میرے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جانتا ہوں میں مررہا ہوں۔

میں تو یہاں آنا ہی نہیں چاہتا تھا پر لوگ مجھے یہاں لائے ہیں۔ آپ میرے لیے پریشان مت ہوں۔ میرے جھڑ چکے بال اور میرے چہرے کی جھریوں کو دیکھیں میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں ، پر آپ ابھی جوان ہیں۔ میں نے اپنی زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے اگر آپ برا نہ مانیں تو مرنے سے پہلے میں اپنی زندگی کے کل تجربات میں سے کچھ آپ کے ساتھ باٹنا چاہوں گا جب میں چار سال کا تھا مجھے لگتا تھا یہ دنیا میرے لیے ہے پھر جب میں چودہ کو پہنچا تو دنیا کو اپنا دستور دینا چاہا تھا۔ میں سوچتا تھا مجھے کبھی نہ فنا ہونے والا انسان بننا چاہیے۔

جب میں اکیس کا ہوا تو امیر بننا چاہتا تھا پھر جب پچیس کا ہوا تو میں محبت کی تلاش میں مارا پھرتا تھا اور جب میں چالیس کا تھا تب میں سب کی مدد کرنے والا ایک مددگار انسان بننا چاہتا تھا۔ اب جب میں یہاں ہوں تو میں مرنا چاہتا ہوں۔

آپ نے دیکھا ، میں نے مختلف وقت میں بہت کچھ کرنا چاہا تھا ضرور میں خوش رہنا چاہتا تھا۔ دوسروں کو سنتے ہوئے میں نے ان کیمطابق خوش رہنے کے بہت اچھے طریقے سوچے تھے جب میں یونیورسٹی میں داخل ہونے جا رہا تھا، میں زولوجی پڑھنا چاہتا تھا ، لیکن سب نے کہا انجینئرنگ پڑھنا چاہیے اگر میں انجینئرنگ پڑھوں گا تو ایک عظیم انجینئر بنوں گا ، تو میں نے انھیں سننا۔ میری فیس ادا کرنے والا کوئی نہیں تھا ، اپنی فیس ادا کرنے کے لیے بھی مجھے خود کام کر نا پڑتا تھا ، مجھے تھرڈ ایئرکا فارم بھیجنا تھا ، جب بھیج چکا تو ان ہی لوگوں نے کہا ’’ تجھے زولوجی پڑھنا چاہیے تھا۔

جب میں اٹھائیس کا ہوا تو سب نے کہا کہ ’’ مجھے ایک خاتون کی ضرورت ہے تو میں نے انھیں سننا اور شادی کر لی ، شادی کے چھ سال بعد میں نے اپنی بیوی کو پڑوسی کے ساتھ سوتے پایا، میں نے پوچھا کیوں اور اس نے مجھے تھپڑ رسید کردیا۔ میں غصے میں تھا پر میں نے کچھ نہ کہا، اگلے دن جب میں کام سے واپس آیا تو وہ ہمارے بچوں کے ساتھ گھر سے بھاگ چکی تھی۔ اب میں اکیلا آدمی ہوں تنہا مر رہا ہوں۔ چالیس سال کی عمر میں ایک بڑا ٹھیکہ حاصل کیا میرا نام خبروں میں تھا۔ اگلے ہی دن میرے دوست اور رشتہ دار سب ہی میرے گھر پر تھے سب کے ساتھ بہت گھمبیر مسائل تھے۔

ایک ہی ہفتے میں ، میں نے اپنی تمام رقم ان پر خرچ کر دی اس وعدے پرکہ وہ واپس کریں گے ، انھوں نے وعدے کے مطابق مجھے رقم واپس نہیں کی۔ میں اپنا ٹھیکہ مکمل نہیں کر پایا اور میں چھ سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ میں جیل میں رہا اور باہرآگیا جب میں باہر آیا تو اب وہ یہاں نہیں تھے۔

اس پورے دورانیے میں میری ایک ہی غلطی تھی جو مجھ پر اب واضح ہوئی ہے ، میں وہ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ میں اپنے آپ کو سننے سے انکاری رہا۔ میں نے اپنی ذات کو اپنے آپ کو نظر اندازکیا اور دوسروں کو سنا۔ اب جب میں یہاں ہوں تو ایک ہی شخص میرے ساتھ ہے اور وہ میری اپنی ذات ہے۔

آپ نے دیکھا کہ دوسروں کو سننا بہت اچھا عمل ہے،دوسروں سے صلاح مشورے لینا عقل مندی ہے پر اپنی ذات کو نظر انداز کرنا بہت خطرناک عمل ہے۔ خدا کے بعد صرف خود کو سنیں۔ میں جانتا ہو ں کہ فی الحال شاید میری یہ بات آپ کو سمجھ نہ آئے پر ہمیشہ یاد رکھنا میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اپنے آپ کو سننا سیکھ لیں۔‘‘ اپنی مرضی کے خلاف اور دوسروں کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے سے زیادہ اذیت ناک کوئی اور چیز نہیں ہے۔

ہر سماج کا یہ ننگا سچ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی جی رہے ہیں۔ دوسروں کی سوچ ، سوچ رہے ہیں وہ ہیں توکچھ اور لیکن نظر آرہے کچھ اور انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان جیسا کوئی دوسرا دنیا میں نہیں ہے۔ وہ سب سے الگ ہیں وہ ہی سب سے زیادہ عقل مند انسان ہیں، بس انھیں ثابت کرنے کی ضرورت ہے اور وہ صرف اپنے آپ کو سن کر ہی یہ بات ثابت کرسکتے ہیں۔ دوسروں کی سنیے ضرور لیکن مانیے صرف اپنے آپ کی۔ اپنے آپ کو عزت دیجیے اپنے آپ پر بھروسہ کیجیے ،کیونکہ آپ اپنے آپ کوکبھی دھوکہ نہیں دے سکتے۔

کبھی غلط رائے نہیں دے سکتے کبھی غلط راستے کا پتہ نہیں دے سکتے۔ نامور ماہر نفسیات ٹونی رابنزکو ایک خاتون کا بڑا تفصیلی خط موصول ہوا۔ محترم ٹونی ! مجھے ساری زندگی سوائے دکھ و تکلیف ، پریشانیوں اور پچھتاؤے کے کچھ نہیں ملا تھا۔ بچپن سے لے کر خاوند کی موت تک مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی خوشی دیکھی ہو۔

ان تکالیف اور مصائب نے مجھے ایک سیریس نفسیاتی مریض بنا دیا تھا میں ایک مرض جسے Multiple Personality Disorder کہتے ہیں ، میں مبتلا تھی ، میں اپنے آپ کو 49 شخصیات کے روپ میں دیکھتی۔ یہ ساری کی ساری شخصیات ایک دوسرے سے الگ اور ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھیں، اپنے لیے راحت تلاش کرنے کا میرے پاس ایک ہی طریقہ تھا کہ خود اذیتی کے نئے نئے پہلو تلاش کیے جائیں، اس دوران میں نے خود کشی کی کوشش کی۔

اسپتال میں مجھے جس ڈاکٹر کے زیر علاج رکھا گیا، اس نے بڑی توجہ سے میرے مسائل سنے تھے۔ اس نے مجھے یہ ترغیب دی کہ میں اپنے لیے 49 شخصیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے زندگی گزارنا شروع کردوں۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل شروع کر دیا۔ یہ تجربہ بہت اذیت ناک ثابت ہوا تھا ، میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس ہستی کو ختم کردوں اورکس کو زندہ رکھوں۔ ہر ایک کی اپنی ترجیحات و یادیں تھیں۔ ہر ایک کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا جسے میں بھلا نہیں سکتی تھی۔ میرا اور برا حال ہوگیا، میں نے دوبارہ خود کشی کرنا چاہی مگر قدرت کو ہر بار میری زندگی عزیز تھی۔

پچھلے سال مجھے آپ کی تحریریں اور پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میں صرف ایک ہوں ، 49 عورتوں کا مجموعہ نہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ خوشی کا تعلق انسان کے اندر سے ہے ، یہ انسان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ میں نے بڑی بہادری سے ان احساسات کا مقابلہ کیا جو مجھے تکالیف پہنچا کر اپنا قیدی بنائے ہوئے تھے۔ آج میں بھرپور زندگی گذار رہی ہوں۔

آپ کی مخلص

الزبتھ پیڑاک

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔