پاک چین راہداری ایک امید ایک یقین
سی پیک کامنصوبہ کچھ عرصے کیلیے پاکستان اورچین کے دشمنوں کی جانب سے یہ بدنیتی پرمبنی’’ ڈس انفارمیشن مہم‘‘ کاشکاربھی ہوا
نو سال پہلے گوادر کی بندرگاہ کی بدولت بلوچستان کی تقدیر جاگی اور چین کے اشتراک سے یہاں ون بیلٹ ون روڈ کا قیام عمل میں آیا جس کا ایک فیز مکمل ہوچکا ہے۔ اس اقدام میں 149 ممالک شامل ہیں، جن کا مقصد چینی قیادت میں علاقائی انضمام کو فروغ دینا ہے۔ پاک چین راہداری 46 بلین ڈالر کے فنڈز کے ساتھ شروع ہوئی، اب بڑھ کر 50 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
سی پیک کی تعمیر کا سفر 2030۔2017 پر محیط ہے۔ سی پیک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے چین اور پاکستان کی حکومتوں ، کمپنیوں اور تمام سماجی شعبوں کی مشترکہ اور انتھک کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کی تعمیر کے عمل میں فریقین نے سائنسی منصوبہ بندی کے اصولوں ، تسلسل سے عمل درآمد ، مشاورت کے ذریعے اتفاق رائے ، باہمی فائدے اور ون ۔ وِن ریزلٹس کے ساتھ ساتھ معیار اور حفاظت کو یقینی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
دونوں فریقوں نے ترجیحی یا ارلی ہار ویسٹ منصوبوں کی فہرست مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ سی پیک کے لیے طویل المدتی منصوبہ بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ ترجیحی یا ارلی ہار ویسٹ منصوبوں سے مراد وہ منصوبے ہیں جو 2018 یا 2020 (ہائیڈرو پاور پروجیکٹس) سے پہلے مکمل ہوجائیں گے۔ سی پیک ایک طویل المدتی منصوبہ بندی پر محیط منصوبہ ہے جس کی مکمل طور پر تکمیل 2030کو ہو جائے گی۔ سی پیک کی بدولت 75000 سے زائد پاکستانی کارکنان کو روزگار کے مواقع
فراہم ہوئے ہیں، جب کہ سال 2030ء تک 23 لاکھ سے زیادہ روزگار کے اضافی مواقع میسر آئیں گے۔
سی پیک منصوبے میں گوادر بندرگاہ ، توانائی ، نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور صنعتی تعاون سمیت چار اہم شعبوں کو ملحوِظ نظر رکھا گیا ہے۔ درمیانی مدت سے طویل المدتی منصوبہ بندی میں دونوں ممالک فنانشل سروسز، سائنس و ٹیکنالوجی، سیاحت، تعلیم، غربت کے خاتمے اور سٹی پلاننگ جیسے شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کے مواقع تلاش کریں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں توسیع کریں گے تاکہ چین ، پاکستان آل راؤنڈ کوآپریشن کے دائرہ کار میں مزید توسیع کی جاسکے۔
تیرہ نومبر 2016 کو گوادر بندرگاہ میں سی پیک پائلٹ پروجیکٹ کا پہلے تجارتی کانوائے کی آمد پر تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس دوران چین پاکستان کا مشترکہ ٹرکوں کا قافلہ دونوں ممالک سے سامان لے کر گوادر بندرگاہ پہنچا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب تجارتی قافلہ کامیابی کے ساتھ شمال سے جنوبی حصے کے ذریعے سے پاکستان کے مغربی خطہ پہنچا۔ ماشااللہ آج گوادر پورٹ بڑی تعداد میں کنٹینر بیرون ممالک کو برآمد کررہا ہے۔ ایکسپریس وے منصوبے اور نیو گوادر بین الاقوامی ہوائی اڈے کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی مشترکہ کاوشوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
گوادر اسمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کو عملی جامع پہنانے کے لیے دونوں فریق مل کر کام کر رہے ہیں۔ سی پیک فریم ورک کے تحت دونوں ممالک نے 16 منصوبوں کو اہم ترجیحات کا حصہ بنایا ہے جب کہ 5 پر منصوبہ بندی جاری ہے ان تمام کی مجموعی طور پر توانائی کی پیداوار 17045 میگاواٹ ہوگی۔ سی پیک کے تحت اہم ترجیحات میں شامل 16 منصوبوں میں سے 9 منصوبوں کو فعال کرکے نیشنل گرڈ میں شامل کیا گیا ہے جب کہ بقیہ پر کام کی پیش رفت جاری ہے۔
2019 کے اختتام تک تکمیل شدہ توانائی کے منصوبوں میں بہاولپور پنجاب کا 400 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک، 50 میگاواٹ داؤد ونڈ فارم، سچل 50 میگاواٹ ونڈ فارم، پورٹ قاسم 2 × 660 میگاواٹ کول فائرڈ پاور پلانٹ، ساہیوال 2 × 660 میگاواٹ کول فائرڈ پاور پلانٹ، 660 میگاواٹ حبکو کول پاور پلانٹ، 100 میگاواٹ جھمپیر یو ای پی ونڈ فارم ، چائنا تھری گورجیز سیکنڈ اینڈ تھرڈونڈ پاور پروجیکٹ اور 2 × 330 میگاواٹ اینگرو تھر کول پاوراینڈ مائن پروجیکٹ شامل ہے ، جب کہ 870 میگاواٹ کے سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن،1320میگاواٹ تھر بلاک ون،330حبکو تھر کول پاور پروجیکٹ،330تھل نووا تھر کول پاور پروجیکٹ بلاک ٹو،720میگاواٹ کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 600 میگاواٹ قائداعظم سولر پارک اور مٹیاری (پورٹ قاسم) سے لاہور ٹرانسمیشن لائن جیسے منصوبوں کی پیش رفت جاری ہے۔
علاوہ ازیں1124 کوہالہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، 300 میگاواٹ گوادر کول پروجیکٹ، 1320میگاواٹ تھر کول پروجیکٹ بلاک۔سکس، 50 میگاواٹ کاچو ونڈ پاور پروجیکٹ اور50میگاواٹ ویسٹرن انرجی پرائیوٹ لمیٹڈ وِنڈ پاور پروجیکٹ بھی منصوبہ بندی میں شامل ہیں۔ سی پیک یقینی طور پر پاکستان میں شمال، جنوبی راہداری کی راہ ہموار کرے گا۔ جس کے تحت سڑکوں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ انفرا اسٹریکچر کے15000ملین ڈالر کی لاگت کے 6 ارلی ہارویسٹ پروجیکٹس میں سے سکھرتا ملتان موٹر وے (ایم5) تکمیل کے مرحلے کو پہنچا ہے ، جب کہ شاہراہِ قراقرم کا تھاکوٹ ، حویلیاں سیکشن تکمیل کے بالکل قریب ہے۔
علاوہ ازیں ایسٹ بے ایکسپریس وے گوادر اور نیوگوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ زیرِ تکمیل ہیں۔ نیز ڈی آئی خان ، ژوب موٹروے اور ایم ایل ون ریلوے پر متعلق امور جے سی سی کی نویں میٹنگ میں نمٹانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 15000ملین ڈالر کی لاگت کے 5سی پیک انفرا اسٹریکچر پروجیکٹس شامل ہیں جن میں سے لاہور تا ملتان موٹروے، سہراب ،خوشاب اورگوادار ، تربت ،خوشاب تکمیل کے مرحلے کو پہنچے ہیں جب کہ ہکلہ ، ڈی آئی خان موٹروے اورژوب ، کوچلک ایکسپریس وے پر کام کی پیش رفت جاری ہے۔ پاکستان کے مغربی علاقوں میں سی پیک کے کئی منصوبے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
مثال کے طور پر قراقرم ہائی وے ( تھاکوٹ تا حویلیاں) فیز ٹو اور اور سکی کناری پن بجلی گھر خیبر پختونخوا میں واقع ہیں۔ پشاور اور کوئٹہ کو سی پیک کی سڑکوں میں مرکزی حیثیت کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی کے پانچویں اجلاس میں منظور شدہ سی پیک ٹرانسپورٹ مونو گرافک اسٹڈی میں برہان تا ڈی آئی خان اور کوئٹہ تا سہراب سڑکیں شارٹ ٹرم پروجیکٹس کے طور پر شامل کیے گئے ہیں ، جب کہ گوادر پورٹ ، گوادر فری زون ، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے ، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ ، گوادر کول فائرڈ پاور پلانٹ اور حبکو کول فائرڈ پاور پلانٹ جیسے تمام منصوبے صوبہ بلوچستان میں ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سی پیک کا منصوبہ کچھ عرصے کے لیے پاکستان اور چین کے دشمنوں کی جانب سے یہ بد نیتی پر مبنی '' ڈس انفارمیشن مہم'' کا شکار بھی ہوا ، جس کی وجہ چین اور امریکا محاذ آرائی بھی ہوسکتی ہے ، کیونکہ چند روز امریکا کو سی پیک کی جانب سے بہت تشویش لاحق تھی۔ یو ایس اے اس حوالے سے بہت سی رپورٹ بھی پیش کر چکا ہے۔ کچھ عرصے قبل پاکستان دشمنوں کی جانب سے صوبہ بلوچستان کے حالات بھی کشیدہ کیے گئے تاکہ سی پیک کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو سب سے پہلے سیکیورٹی کے مسائل حل کرنے چاہیے، تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار محفوظ بلوچستان اور گوادر میں بلا خوف و خطر کام کرسکیں۔ پاکستان دشمن ایجنسیاں اس منصوبے کو بند کرانا چاہتی ہیں، مگر اللہ کے کرم سے سی پیک پر آج بھی کام جاری ہے ، جو انشا اللہ اپنے مقررہ وقت یعنی 2030 میں مکمل ہو جائے گا۔