انسانی رنگ اور زبان میں فرق: قدرت کی نشانی... (تیسرا حصہ)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  بدھ 14 ستمبر 2022
زبان کا ارتقا ہو یا انسانی خدوخال سب اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے مظاہر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

زبان کا ارتقا ہو یا انسانی خدوخال سب اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے مظاہر ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اب تک ہم بات کرچکے ہیں کہ ممکنہ طور پہ حضرت آدمؑ کے خدوخال افریقی ہوسکتے ہیں، جبکہ اس وقت دنیا میں موجود انسانی آبادی میں بہت زیادہ تنوع اور اختلاف پایا جاتا ہے، خواہ یہ اختلاف خدوخال کا ہو یا جلد کی رنگت کا۔ جلد کی رنگت کے تنوع کو بھی تفصیل کے ساتھ جان چکے ہیں کہ مختلف خطوں میں آباد انسانوں کی جلد کا رنگ آپس میں مختلف کیوں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک ماں باپ کی اولاد ایک جیسی شکل و صورت اور رنگت کی حامل ہوتی، لیکن ایسا نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان خطوں میں جاکر آباد ہونے والے انسانوں کا رنگ قدرتی طور پر اپنے اپنے ماحول کے مطابق ڈھلتا گیا اور اس کی وجہ سے ہمیں آج دنیا میں ایک تحقیق کے مطابق 36 کے لگ بھگ جلد کے رنگوں کے مختلف شیڈز ملتے ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں یا کوئی بھی انسان کیسے دعویٰ کرسکتا ہے کہ ابتدائی انسان افریقی رنگت اور خدوخال کا حامل تھا۔ یہ بالکل بجا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اگرچہ میں نے پیچھے جینیاتی ٹائم مشین کے حوالے سے کیے گئے تجربے کا مفصل ذکر کیا ہے، لیکن بحث کی خاطر مان لیتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ پہلے انسان کا کیا رنگ تھا۔

بلاگ کے ابتدائی حصے یہاں سے پڑھیے:

 انسانی رنگ اور زبان میں فرق: جینیاتی ٹائم مشین … (پہلا حصہ)

انسانی رنگ اور زبان میں فرق: رقیبِ رو سیاہ … (دوسرا حصہ)

اب یہ تو طے ہے کہ سب سے پہلے انسان کا رنگ سبز، نیلا یا جامنی نہیں ہوسکتا۔ یہ لازمی امر ہے کہ وہ سفید یا سیاہ یا پھر گندمی رنگت کا حامل ہی ہوگا، ان کے علاوہ اور کوئی رنگت نہیں ہوسکتی۔ اگر ہوسکتی ہوتی تو آج سب میں نہ سہی کسی نا کسی انسان میں تو لازمی نظر آتی۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس ماضی قدیم کے انسان کی جلد کہیں سے سفید ہو تو کہیں سے سیاہ اور کہیں سے گندمی، کیونکہ ایسی رنگت والا کوئی انسان ہم نے کہیں نہیں دیکھا نہ کسی کتاب میں ایسے کسی انسان کا ذکر پڑھا۔ ان دونوں مفروضوں کی دلیل یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ بچوں میں ان کے والدین کی جینز موجود ہوتی ہیں، بعض مرتبہ یہ جینز اپنا اثر دکھاتی ہیں اور کبھی کبھار نہیں بھی دکھاتی۔ لیکن یہ اثر اولاد کی اولاد یا ان سے بھی آگے جاکر نظر آسکتا ہے (اگر اس بارے میں آپ تفصیل جاننا چاہتے ہیں کہ جینیات اور موروثیت کیسے کام کرتی ہیں تو مینڈل کے تجربات جو کہ میٹرک اور انٹر کی بیالوجی کی کتب میں پڑھائے جاتے ہیں، کا مطالعہ کیجیے)۔ مثال کے طور پر اگر اولین بشر کا رنگ فرض کرلیتے ہیں کہ سبز یا نیلا تھا تو دنیا میں موجود کسی ایک بھی انسانی نسل میں کسی ایک دو یا چند افراد کا رنگ تو سبز یا نیلا ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا منطق اور دلیل کے اعتبار سے تو اولین انسان کی جلد سیاہ، گندمی یا پھر سفید میں سے ہی ایک ہوسکتی ہے۔

ایک رنگ سے درجنوں رنگوں کا وجود میں آنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انسانی جسم خود کو اپنے حالات اور ماحول کی مناسبت سے اس طرح سے ڈھالتا ہے کہ اس کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوسکے۔ یہ بہت سست رفتار اور آہستہ عمل ہے، جو کہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس عمل کی نگہبانی قدرت خود کر رہی ہوتی ہے۔ جو صفات اور خصوصیات انسانوں کےلیے نقصان دہ اور مضر ہوتی ہیں، وہ وقت کے ساتھ یا تو ختم ہوجاتی ہیں یا پھر ایسی خصوصیات سے بدل جاتی ہیں جو کہ کسی ایک خطے کے مخصوص حالات کے تناظر میں وہاں کے آباد انسانوں کےلیے مفید ہوتی ہیں۔ یہ عمل صرف انسانوں کےلیے مخصوص نہیں بلکہ تمام تر جاندار، نباتات، حشرات، حیوانات، جرثومے حتیٰ کہ وائرسوں میں بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو کورونا وائرس کی ہے کہ کیسے ہماری آنکھوں کے سامنے ہی دو برسوں میں ایک وائرس سے کتنی اقسام (اومیکرون، ڈیلٹا وغیرہ) وجود میں آچکی ہیں۔

قرآنِ حکیم کی سورۃ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ (الروم، 30 : 22)
ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے۔ بے شک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) والوں کےلیے نشانیاں ہیں۔

یہ رنگوں کا تنوع اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جیسے کہ زمیں و آسماں کی تخلیق۔ ان کے ساتھ ہی زبان کے اختلاف کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی نشانی کہہ رہے ہیں کہ جو تمام انسان الگ الگ بولیاں بولتے ہیں جیسے عربی، فارسی، اردو، انگریزی، عبرانی، فرانسیسی، روسی، ترکی، بنگالی یہ سب بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ عربی، فارسی یا عبرانی کی ابتدا کیسے ہوئی، لیکن یہ اردو تو چند صدیوں پہلے ہی وجود میں آئی ہے اور دیکھتے دیکھتے ہی اس کی شکل کیا سے کیا ہوتی گئی ہے۔ اسی طرح اردو کے اپنے کئی لہجے ہیں جو مختلف علاقوں میں رائج ہیں۔ ان تمام لہجوں کا ارتقا وقت کے ساتھ ساتھ ہوا ہے اور بعینہ اردو کی لغت، ذخیرہ الفاظ اور گرامر سب میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے، جسے عرفِ عام میں ارتقا کہا جاتا ہے۔ اس ارتقا کے ایک طرح سے ہم خود شاہد بھی ہیں کہ ہم نے امیر خسرو کی ’’چھاپ تِلک سب چھین لی رے موسے نیناں مِلائی کے‘‘ سے لے کر ’’’سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو، ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے‘‘ اور ’’دل کے آئینے میں ہے تصویر یار، جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی‘‘ اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ ہم امیر خسرو کے زمانے والی اردو نہ تو بولتے ہیں اور شاید ٹھیک سے سمجھ بھی نہ سکیں، اسی طرح میر تقی میر کے زمانے کا لفظ ’’ٹک‘‘ بھی ہم نہیں استعمال کرتے، شاید جنھوں نے یہ شعر ہی نہ پڑھا یا سنا ہو انھیں تو اس لفظ کا علم بھی نہیں ہوگا۔

اب چاہے کسی زبان کا ارتقا ہو یا انسانی خدوخال ہوں، یہ سب زمین اور آسمان کی تخلیق کی طرح ہی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے مظہر ہیں۔ تو جس عمل یا پروسیس سے گزرنے کے بعد یہ مظاہر ہمارے سامنے آتے ہیں یعنی ارتقا کا عمل، تو پھر وہ کیسے اسلام کے خلاف ہوسکتا ہے۔ زبان کی بدلتی حالت کو اگر آپ ارتقا کی براہِ راست دلیل نہیں سمجھ سکتے تو آپ کا جھجکنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن یہ رنگوں کا اختلاف تو حیاتیاتی ارتقا کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔

تخلیقِ کائنات اور تخلیقِ بشر کے حوالے سے جو عمومی تصور ہمارے ہاں راسخ ہے وہ یہ ہے کہ جیسے کسی مجسمہ ساز نے بہت سارے مجسمے بناکر ایک جگہ ڈھیر کردیے ہوں۔ جبکہ اس کے برعکس نظریہ ارتقا بتاتا ہے کہ کیسے بتدریج اور مرحلہ وار جانداروں کی تخلیق کا عمل ہماری زمین پر وقوع پذیر ہوا۔ ابتدا میں کون سی قسم کے جاندار وجود میں آئے، ان کے بعد کون سے اور پھر ان کے بعد کون سے۔ اب اگر ان تمام مراحل کے ثبوت اور شواہد بھی دستیاب ہوں اور اتنے مفصل انداز میں ہوں تو پھر بھی کوئی روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت کو جھٹلائے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔