جے یو آئی کا ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کا اعتراف

ویب ڈیسک  پير 3 اکتوبر 2022
قانون خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟کیا یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ شریعت کورٹ

قانون خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟کیا یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ شریعت کورٹ

 اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے وکیل نے ٹرانس جینڈر قانون کی حمایت کا اعتراف کیا ہے جب کہ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے یو آئی نے خود ٹرانس جینڈر قانون منظور کیا، اب یہاں کیا لینے آئی ہے۔

وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ قانون کیخلاف دیگر درخواستیں پہلے سے زیر سماعت ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے پوچھا کہ آپکی درخواست میں نیا کیا ہے؟۔ کامران مرتضی نے جواب دیا کہ اپنی جماعت کی نمائندگی چاہتے ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے پوچھا کہ کیا جے یو آئی قانون کی منظوری میں شامل تھی؟۔ کامران مرتضی نے جواب دیا کہ جے یو آئی نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فضل الرحمان کی ٹرانس جینڈر ایکٹ کی حمایت کی تردید

قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے کہا کہ قانون خود منظور کیا تو عدالت کیا لینے آئے ہیں؟ کیا یہ جے یو آئی کی ذمہ داری نہیں تھی کہ جائزہ لیکر قانون بناتے؟ پانچ سال بعد جے یو آئی کو یاد آیا جب درجن درخواستیں عدالت آ چکی ہیں۔

وکیل جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے جنس تبدیلی کے اختیار کی شق چیلنج کی ہے۔

چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جس شق کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غلط ہے، لگتا ہے آپ نے قانون پڑھا ہی نہیں، پانچ سال پہلے آپکو نہیں پتا تھا کہ قانون کا غلط استعمال ہوگا؟۔

یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی نے بھی ٹرانس جینڈر ایکٹ کو شریعت کورٹ میں چیلنج کردیا

وکیل جے یو آئی کامران مرتضی نے کہا کہ اندازہ ہے کہ عدالت آنے میں تاخیر ہوگئی ہے، پارلیمنٹ میں ترمیمی بل بھی جمع کروا دیا ہے، آج پرائیویٹ ممبر ڈے پر بل پیش کیا جائے گا۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ عدالت آنے کے بجائے پارلیمان میں بولنا چاہیے تھا۔

شریعت کورٹ نے جے یو آئی کی درخواست دیگر مقدمات کیساتھ منسلک کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف تمام درخواستوں پر سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔