ایچ ای سی نے جامعات میں فی طالب علم اخراجات کا شیئر 20 فیصد سے بھی کم کردیا

صفدر رضوی  اتوار 23 اکتوبر 2022
فوٹو فائل

فوٹو فائل

 کراچی: سندھ سمیت ملک بھر کی سرکاری جامعات کے”فی طالب علم اخراجات“per student cost کی مد میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا شیئر20فیصد یا اس سے بھی کم ہوجانے کا انکشاف ہوا ہے۔

جامعات میں فی طالب علم آنے والے اخراجات میں ایچ ای سی کاحصہ مسلسل کم ہونے کا بڑاسبب ان یونیورسٹیز کے بجٹ میں بتدریج کمی اوراخراجات میں مسلسل اضافہ بتایا جارہا ہے جبکہ ملک میں ہونے والی مہنگائی بھی اس کاباعث بن رہی ہے، اس صورتحال کی وجہ سے سرکاری جامعات میں طلبا وطالبات کے لیے سہولیات کے فقدان سمیت دیگر چیلنجز کاسامنا کرنے پر مجبور ہیں جبکہ  انفرااسٹریکچرکی ابتری بھی طلبا کے تعلیمی سفرمیں مشکلات پیداکررہی ہے۔

ایکسپریس کواس حوالے سے صوبائی اور وفاقی جامعات سے ملنے والے انتہائی حیران کن اعداد وشمار کے مطابق  این ای ڈی یونیورسٹی میں ”پر اسٹوڈنٹ کوسٹ“ (ایک طالب علم پر آنے والے اخراجات) میں ایچ ای سی کاشیئر20فیصد تک گرگیا ہے، اردو یونیورسٹی میں اس مد میں ایچ ای سی کے شیئرمیں 12فیصد اور جامعہ کراچی میں چند سال میں 10فیصد تک کمی آئی ہے۔

این ای ڈی میں مالی سال 2017/18میں طالب علم پرآنے والے اخراجات میں سے ایچ ای سی کاشیئر51فیصد ہوتا تھا جو اب 31 فیصد رہ گیا ہے، جامعہ اس وقت فی طالب علم پر سالانہ 1لاکھ 81ہزارروپے خرچ کررہی ہے جوگزشتہ برسوں میں 1لاکھ سے بھی کم تھا اورفی طالب علم اخراجات 1 لاکھ سے کم ہونے پرایچ ای سی کاشیئر50فیصد سے زیادہ تھاجو2لاکھ کے قریب پہنچنے پر 30فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔

واضح رہے کہ جامعات میں per student costکاتعین”کل اخراجات کوانرولڈ طلبہ کی کل تعداد سے تقسیم“ کرکے کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے سبب بعض سرکاری جامعات اپنی فیسیں بڑھانے پر مجبورہیں تاہم پبلک سیکٹریونیورسٹیز ہونے کے سبب یہ جامعات ایک مخصوص دائرے کے اندر رہتے ہوئے فیسوں میں اضافے کی پابند ہیں اورنجی جامعات کی طرح فیسوں میں ہوش ربا اضافہ نہیں کرسکیں۔

این ای ڈی یونیورسٹی سے حاصل ہونے والے بجٹ کے اعداد وشماربتاتے ہیں کہ 2018/19 کی فی طالب علم کوسٹ میں ایچ ای سی کاحصہ 51 فیصد سے کم ہوکر45فیصد آگیا تھا 2019/20میں یہ تناسب مزیدکم ہوکر40فیصد،2020/21میں 38 فیصداوراس کے بعد2021/22میں مزید7فیصد کم ہوکر31فیصد تک رہ گیا۔

ادھر ایچ ای سی کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ رواں مالی سال سمیت گزشتہ 2مالی سال میں ایچ ای سی سرکاری جامعات کے فنڈزمیں اضافہ ہی نہیں کرسکی، سال 2017/18میں ایچ ای سی کی ملک بھرکی سرکاری جامعات کی کے لیے recurring gran غیرترقیاتی گرانٹ 63.183 بلین روپے تھی سال 2018/19میں یہ گرانٹ 65.020کی گئی پھرسال 2019/20میں اسے مزید کم کرتے ہوئے 64.100 ارب روپے کیا گیا اورگزشتہ مالی سال 2020/21میں اس گرانٹ میں یکسانیت ہی رہی جبکہ رواں مالی سال 2022/23میں بھی گرانٹ میں اضافہ نہیں ہوسکا بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی جس پر وائس چانسلرز کی جانب سے آواز اٹھائی گئی جس کے بعد ایچ ای سی نے وفاقی حکومت کوایک خط جاری کیا۔

ایچ ای سی کے خط میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری جامعات کی ضرویات کے مطابق ایچ ای سی کی اصل غیرترقیاتی گرانٹ 104 بلین سے کچھ زیادہ ہونی چاہیے تاہم ن لیگ کی وفاقی حکومت نے بادل نخواستہ پرانی گرانٹ کوہی برقراررکھا۔

ایکسپریس نے اس صورتحال پر اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے دوماہ قبل مقررکیے گئے نئے چیئرمین ڈاکٹرمختاراحمد سے رابطہ کیاتو انہوں نے اس بات کوتسلیم کیاکہ بجٹ میں اضافہ نہ ہونے سے جامعات کوشد ید مشکلات درپیش ہیں۔

ڈاکٹرمختار کا کہنا تھا کہ یہ حالات تقریباً ڈیڑھ سال قبل شروع ہوئے اب مہنگائی بڑھ گئی ہے تنخواہیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں اور پیٹرول سمیت دیگرمدوں میں بھی مہنگائی بڑھ چکی ہے، مزید یہ کہ اب ہمیں سیلاب کابھی سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے خود بھی اس معاملے پر شرمندگی ہوتی ہے ایچ ایسی نے اس معاملے کو گورنمنٹ کے سامنے اٹھایا ہے تاہم اب ہم صوبوں اور وفاق کویہ کہنے جارہے ہیں کہ مزید نئی جامعات نہ بنائی جائیں بلکہ جویونیورسٹیز پہلے سے کام کررہی ہیں ان کی استعداد کار بڑھائیں۔

ان کاکہناتھا کہ جامعات کی بیڈ گورننس کے سبب بھی کچھ مالی مشکلات ہیں، اضافی ملازمین ہیں جبکہ فنانشل منیجمنٹ نہیں ہے۔

ادھر جامعہ کراچی سے حاصل کیے گئے بجٹ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال 2021/22میں per student costاب 1لاکھ 64ہزارروپے سے کچھ زائد ہوچکی ہے جس میں ایچ ای سی کاشیئر38فیصد ہے مالی سال 2016/17میں یہ شیئر48فیصد تھا 2017/18میں ایچ ای سی کاشیئر45فیصد،2018/19 میں 42 فیصد، 2019/20 میں 41 فیصد تھا جوگزشتہ مالی سال میں مزید3فیصدکم ہوا اورگزشتہ  5سال میں مجموعی طوپر 10فیصد کم ہوا۔

اسی طرح وفاقی حکومت کے تحت چلنے والی فیڈرل اردویونیورسٹی میں بھی per student cost کی صورتحال بتدریج نیچے کی جانب ہی جارہی ہے یہ یونیورسٹی اپنے طالب علم پراس وقت سالانہ 1لاکھ 21ہزارروپے خرچ کررہی ہے جس میں ایچ ای سی کاشیئرگزشتہ مالی سال 2021/22 تک 46.17فیصد ہے جوچاربرس قبل 2018/19 میں 58 فیصد تھا، سال 2019/20میں یہ شیئر 52 فیصد اور2020/21 میں 49 فیصد تھا۔

لاوہ ازیں اس صورتحال پر جب ”ایکسپریس“ نے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹرخالد محمود عراقی سے بات کی توان کا کہنا تھا کہ”ہم فیسیں بڑھاکرمتوسط اورغریب طبقے پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کرسکتے، سرکاری جامعات ان طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کاایک بڑا ذریعہ ہیں لہذا جامعات اپنے دیگروسائل اورفیسوں کوایک مخصوص حد تک ہی لے جاسکتے ہیں“۔

این ای ڈی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرسروش حشمت لودھی سے جب اس سلسلے میں بات کی توان کا کہنا تھا کہ اخراجات اس تناسب سے بڑھ رہے ہیں کہ ہمارابجلی کابل اے سی اور دیگر برقی آلات میں کمی کے باوجود مسلسل بڑھ رہا ہے ہم نے یونیورسٹی میں اے سے بند کراکے بجلی کی مد میں اخراجات پر قابو پانے کی کوشش کی توٹیرف بڑھنے کے سبب بل کم ہونے کے بجائے مزیدبڑھ گیا۔

ادھرجامعہ اردوکے وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹرضیاء الدین کابھی یہی کہنا تھاکہ جامعہ اردو بڑھتی ہوئی مہنگائی میں بجٹ خسارے کے سبب مشکلات کاسامنا کررہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔