جرائم

امتیاز بانڈے  جمعـء 28 اکتوبر 2022

گزشتہ کئی سالوں سے سندھ اور خصوصا کراچی میں مقیم غیر ملکی قومیتوں کا جو رویہ رہا ہے اور ان سے جو واسطہ رہا ہے اس کی بنیاد پر اپنا تجربہ یا تجزیہ پیش کررہا ہوں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا کاروباری مرکز ہے، جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں افغانستان میں جاری جنگ کی وجہ سے تقریبا چالیس لاکھ کے لگ بھگ افغان ہجرت کر کے پاکستان آئے ، جنہیں پاکستان نے اور خصوصا سندھ اورکراچی کے عوام نے کھلے دل سے قبول کیا۔ پھر ہوا یوں کہ افغانیوں کے آنے کا سلسلہ تھم نہ سکا۔

پہلے پہل تو انہیں افغان مہاجرین کے کیمپس میں رکھا گیا لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ کیمپوں سے نکل کر پورے سندھ اور خصوصا کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ کچھ کرپٹ اہلکاروں کی مدد سے ان میں سے بیشتر افغانیوں نے خود کو پاکستانی ظاہر کر کے قومی شناختی کارڈ بھی حاصل کر لیے ، جس کا انکشاف گزشتہ دنوں ایف آئی اے ، سندھ کے ڈائریکٹر نے ایک پریس کانفرنس میں بھی کیا تھا۔

گو کہ ان کا درجہ آج بھی (Refugees) مہاجرین کا ہی ہے لیکن اب کراچی کے بڑے کاروباری مراکز میں ان پناہ گزینوں کی بڑی بڑی دکانیں ہیں۔ کراچی میں طارق روڈ پر رابی سینٹر ، ڈینز مال ، دبئی شاپنگ مال اور کلفٹن کے بڑے شاپنگ مالز میں کپڑوں کی بڑی بڑی دکانوں کے مالکان آپ کو افغانی نظر آئیں گے۔ میرے کچھ پولیس کے دوست اس بات کے گواہ ہیں کہ انہوں نے ان بڑے دکانداروں کو 1992-93میں طارق روڈ کے فٹ پاتھ پر کپڑا بیچتے دیکھا تھا۔

حد تو یہ ہے کہ یہاں کپڑے کا کاروبار ڈالر کے ریٹ کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ ایک دن کچھ کپڑا خریدا اور دوسرے دن اس کا رنگ تبدیل کرنے کے لیے دوبارہ گئے تو دکاندار نے بتایا کہ آج ڈالر کا ریٹ کل کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس لیے آپ کو اتنی ہی رقم زیادہ دینی پڑے گی۔ جب بتایا کہ ہم نے تو پاکستانی روپے میں خریداری کی ہے تو کپڑا تبدیل کرنے سے منع کر دیا۔

حد تو یہ ہے کہ دکانوں پر زیادہ تر اسمگلنگ کا مال بیچا جا رہا ہے اور جب کبھی کسٹمزکی ٹیموں نے یہاں چھاپہ مار کارروائی کی انہوں نے نہ صرف مزاحمت کی بلکہ کئی واقعات میں کسٹم اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک پناہ گزین نہ صرف سامنے آ کر بدمعاشی کرتا ہے بلکہ حکومتی اہلکاروں پر گولی چلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ سعودی عرب اور امارات میں یہی لوگ رات کے پچھلے پہر بھی اگر سگنل سرخ ہو تو رک جاتے ہیں جبکہ کراچی میں انہیں نہ کسی سگنل کی فکر ہے نہ پولیس کی۔

سپرہائی وے کے ارد گرد کی زمینوں پر صرف اپنے ریتی بجری کے کاروبار کی خاطر انہوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی پرائیویٹ پراپرٹیز پر بھی ان کا قبضہ ہے جو ضلع انتظامیہ خالی کروانے سے لا چار ہے۔ الآصف اسکوائر جیسے بڑے پروجیکٹ پر قبضے میں اکثریت انہی افغانی نژاد شہریوں کی ہے۔ اسی پروجیکٹ کے پیچھے جنت گل ٹائون نامی بستی بھی سرکاری زمین پر قبضہ کر کے بنائی گئی جسے بعد ازاں ایک لسانی پارٹی نے لیزکروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

کراچی سے اندرون ملک جانے والی تمام ٹرانسپورٹ کے ستر سے اسی فیصد ملکیت کچھ گروہوں کے پاس ہیں۔ شیر شاہ ، کراچی کی کباڑ مارکیٹ میں چلے جائیں تو ان دکانوں پر آپ کو ٹائروں سے لے کر گاڑیوں کے تمام اسپیئر پارٹس مل جائیں گے اور یہ تمام کا تمام سامان عموما اسمگلنگ کے ذریعے لاکر ان دکانوں پر بیچا جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ نہ صرف ان کی چند مخصوص کاروباروں پر اجارہ داری ہے بلکہ جب آپ خریداری کرنے جائیں اور بھائو تائو کرنا چاہیں تو ان کی اکثریت بدتمیزی پر اتر آتی ہے۔

سپر ہائی وے پر موجود ایک بڑی بستی جسے عموما ’’ کوچی کیمپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے جرائم پیشہ افراد اور چوری شدہ اشیاء کی خریداری کا ایک بڑا مرکز ہے اور یہ بات گزشتہ کئی سالوں میں پکڑے جانے والے جرائم پیشہ باشندوں نے دوران تفتیش بتائی۔ کئی ملزمان نے اپنے بیانات میں یہ بھی انکشاف کیا کہ یہاں کچھ جرائم پیشہ افراد مسلح وارداتیں کرنے کے لیے کرائے پر بھی اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے مختلف علاقوں میں گھروں کے اندر ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں میں دیگر قومیتوں کے افراد کے ساتھ ساتھ عموما یہی گروپس متحرک ہیں۔ تفتیشی افسران کے مطابق اس گروپ کے افراد کی تعداد تیس سے چالیس ہے جو چھ ، چھ اور سات سات کی ٹولیوں میں گھروں میں گھس کر نہ صرف لوٹ مارکرتے ہیں بلکہ کئی وارداتوں میں اہل خانہ پر بد ترین تشدد بھی کیا گیا۔

کچھ عرصے قبل میرے ایک دوست کی نئی گاڑی سے اس کا بہت مہنگا ساؤنڈ سسٹم چوری ہوگیا۔ ایک واقف کار نے بستی میں کسی ’’ پتھاریدار ‘‘ سے رابطہ کیا اور اسے گاڑی کا ماڈل، چوری کا وقوعہ اور دن بتایا۔ دو دن بعد اس نے واپس کال کرکے بتایا کہ کسی کو بھیج کر وہ سائونڈ سسٹم منگوا لو اور اس واپسی کے اس نے اس وقت شاید پانچ یا چھ ہزار روپے لیے۔

بڑے منظم طریقے سے کراچی سے چوری اور چھینی جانے والی گاڑیوں کے مختلف پارٹس اور موبائل فونز ان بستیوں میں بیچ دی جاتی ہیں ، لیکن آج تک بڑے پیمانے پر یہاں کسی قسم کا آپریشن کلین اپ نہیں کیا گیا۔

کبھی اگر چھوٹی موٹی کارروائی کی بھی گئی تو ان کے جرائم پیشہ افراد دیگر لوگوں کو آگے کرکے ہائی وے بند کر دیتے ہیں اور اگر کبھی بڑی کارروائی کی پلاننگ کی گئی تو وہ اطلاع وہاں پہلے سے پہنچا دی گئی جس سے تمام پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی اور یہ سب کچھ پولیس کی ناک کے عین نیچے ہوتا رہتا ہے ، لیکن ان علاقوں کی پولیس سرکاری زمینوں پر قبضے کروانے کے لیے ’’ سسٹم‘‘ کی مدد کرنے میں زیادہ مصروف رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔