معاشی صورتحال تشویش ناک

اس معاشی بدحالی کی بڑی وجہ لانگ مارچ اور اداروں کی تضحیک ہے


کنول زہرہ November 27, 2022

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال تشویش ناک لہٰذا معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے حکومت کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔

آئی ایم ایف کے وفد نے توانائی ، پٹرولیم ، خزانہ اور اقتصادی امور کے حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں ٹیکسوں کی شرح اور محصولات میں اضافے سمیت نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ملک میں سیاسی بے عدم استحکام کی وجہ سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے، عمران خان جو اپنے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لانگ مارچ کی وجہ سے ملک کا معاشی نظام مزید ابتری کا شکار ہے۔

عمران خان کے احتجاج ہمیشہ ہی ملک پر بھاری رہے ہیں 2014 میں 126 دن کے دھرنے کے دنوں میں چین کے صدر پاکستان نہیں آسکے تھے اور اب کی بار سعودی پرنس نہیں آسکے جب کہ عمران خان واقف ہیں کہ چین اور سعودی دونوں ہی پاکستان کے دوست ممالک ہیں۔ ان کے آنے سے مالی پیکیج اور بزنس آتا ہے مگر پاکستان میں اقتدار کا لالچ سب کو ہے تاہم ملک کے وقار اس کے استحکام ، عوام کی فلاح کا خیال کسی کو نہیں ہے۔

عمران خان جس عوام کو اپنے مقصد یعنی اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کیا انھوں نے اپنی دور حکومت میں غربت ، بیروزگاری ختم کی؟ پھر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر انھیں دوبارہ اقتدار مل جاتا ہے تو پاکستان کی گلی در گلی میں دودھ اور شہد کی نہریں ہونگی۔ آج تک کسی حکمران نے عوام کی بہبود میں دلچسپی نہیں لی ، ہر ایک نے اپنی اپنی دانست کے مطابق ملک کو لوٹا ہے ، کسی نے خزانہ صاف کیا تو کوئی توشہ خانے کی چیزیں لے اڑا۔

عالمی بینک نے رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح کی پیش گوئی کو کم کر کے 4.3 فیصد کر دیا ہے، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً ایک فیصد کم ہے، اور تحریک عدم اعتماد کے تحت سبکدوش ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے توانائی پر سبسڈی کو ختم کر کے معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی ہے۔

پاکستان نے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور ایندھن پر ٹیکس بڑھانے کے معاہدے پر عمل کیا تھا۔ تاہم ، گھریلو سطح پر بڑھتی ہوئی توانائی کی قیمتوں اور خان حکومت کو اپوزیشن کے پریشر نے فروری میں بجلی اور ایندھن کی قیمتوں میں ریلیف دینے پر مجبور کیا تھا ، اگرچہ یہ اقدامات گھریلو قیمتوں میں اتار چڑھائو کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، وہ حکومت کے بجٹ پر براہ راست بوجھ بھی تشکیل دیتے ہیں، جو آگے بڑھتے ہوئے مالیاتی خطرات کو بڑھا سکتے ہیں۔

جی ڈی پی کی نمو مالی سال 22 میں 4.3 فیصد ( گزشتہ سال کے 5.6 فیصد کے مقابلے) اور مالی سال 23 میں 4 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ جنوری 2022 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 5.2 فیصد رکھی گئی تھی جسے بعد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ قیمتوں میں کٹوتی یا سبسڈی کی فنانسنگ مالیاتی بجٹ پر اضافی بوجھ پیدا کر سکتی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ جاری پروگرام میں مسائل پیدا کر سکتی ہے اور مالیاتی بجٹ کے استعمال کو دوسرے ، زیادہ پیداواری منصوبوں پر محدود کر سکتی ہے۔

سبسڈیز غیر پائیدار اور غیر موثر تھیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ان کی وکالت کی گئی کہ صارفین سے کم قیمتیں وصول کی جائیں۔ موجودہ ماحول میں پاکستان کے مسائل میں سے ایک اس کی توانائی کی سبسڈی تھی، جو خطے میں سب سے بڑی تھی۔

2022 میں تمام ممالک میں افراط زر میں اضافہ متوقع ہے اور 2023 میں کم ہونے سے پہلے پاکستان اور سری لنکا میں مہنگائی دہرے ہندسے تک پہنچ جائے گی ، اگرچہ موجودہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت کوشش کر رہی ہے، میثاق معیشت کے لیے عمران خان کو بھی آن بوڈر آنے کا کہہ چکی ہے مگر پھر وہی کہونگی ملک کے اقتدار کے لیے ہر ایک لالچی ہے مگر ریاست کے استحکام میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے ، چونکہ عمران خان اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی الگ ہی منطق بنا رکھی ہے ، جس کا ملک کی معاشی صورتحال پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔

پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جس کا ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں60 فیصد ، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ملازمتوں میں 40 فیصد اور ملکی جی ڈی پی میں 8.5 فیصد حصہ ہے۔ یہ صنعت 15ملین افراد کو ملازمتیں فراہم کرتی ہے ، مگر حکمرانوں کے عاقبت نا اندیش فیصلوں کے باعث ہر سیکٹر تباہی کی جانب گامزن ہے۔ 45 فیصد عوام سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

آئی ایم ایف کی غلامی کو قبول کرنے میں تحریک انصاف اور اتحادی حکومت دونوں برابر کی مجرم ہیں ، دونوں نے عوام کی مشکلات میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے مسلسل بیرون ملک دورے کیے ہیں۔ تاہم، ملک میں پھیلے سیاسی انتشار کے سبب غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان آنے کے لیے راضی نہیں ہیں۔

ظاہر ہے اس معاشی بدحالی کی بڑی وجہ لانگ مارچ اور اداروں کی تضحیک ہے، کچھ ملک دشمن عناصر پاکستان کے معاشی نظام کو مزید ابتر کرنے کے لیے کالعدم جماعتوں کے پھر سے متحرک ہونے کی خبریں پھیلا رہے ہیں جسے یکسر مسترد کر دیا گیا ہے، دراصل ملک دشمن لوگ اس قسم کی افواہیں پھیلا کر ملک کے سیاحتی شعبے کو نقصان پہنچنا چاہتے ہیں، اللہ کے فضل سے ملک امن و امان کا مسئلہ اتنا نہیں ، البتہ سیاسی خلفشار کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، جس کا فوری حل ضروری ہے۔

مقبول خبریں