نوٹوں کی تبدیلی

شہلا اعجاز  جمعـء 23 دسمبر 2022

خبر تھی کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے پرانے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی تاریخ میں ایک بار پھر سے توسیع کردی گئی جو اکتیس دسمبر 2022 تک تبدیل کرائے جاسکتے ہیں۔

مقررہ تاریخ کے بعد یہ نوٹ ناقابل تبدیل ہوں گے۔ ایک پریس ریلیز میں کہا گیاتھا کہ اسٹیٹ بینک مارکیٹ سے گندے اور ناکارہ نوٹوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کی جگہ نئے نوٹ فراہم کرتا ہے جس کے لیے اسٹیٹ بینک دیگر مرکزی بینکوں کی طرح وقتاً فوقتاً کرنسی نوٹوں کی نئی سیریز جاری کرتا ہے اور وفاقی حکومت کی منظوری سے پرانی سیریز ختم کرتا ہے۔

نئی سیریز کا اجرا اور پرانے ڈیزائن کے نوٹوں کو ختم کرنے سے مرکزی بینکوں کو جعل سازی کو روکنے اور گردش میں بینک نوٹوں کی سالمیت کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔

بینک نوٹوں کی نئی سیریز 2005سے 2008 تک جاری کی گئی تھی اور پرانے ڈیزائن کے نوٹوں کو آہستہ آہستہ گردش سے ہٹا دیا گیا تھا اس لیے وفاقی حکومت نے دس، پچاس، سو اور ہزار روپے کے پرانے ڈیزائن کے بینک نوٹوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ نوٹ یکم دسمبر 2016 سے قانونی ٹینڈر کے لیے ختم ہو گئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس قسم کی خبریں گردش میں ہیں۔ لوگ اپنے جمع شدہ نوٹ کھنگال رہے ہیں کہ کہیں کوئی پرانا بڑا نوٹ تو نہیں رہ گیا۔ ایک اور بڑا مسئلہ لوگوں میں کم علمی کا بھی ہے۔

پاکستان کے اکثر دیہی، دور دراز کے علاقوں میں جہاں لوگوں کو اس بارے میں بھی کوئی واقفیت نہیں، کیا وہ اس تبدیلی نوٹ سے مستفید ہو سکتے ہیں؟ شہر میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال ہے۔ ہماری ایک جاننے والی کو بڑا گلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ دس سے لے کر ہزار تک کے نوٹوں کی تبدیلی میں پانچ سو کے نوٹ کیوں شامل نہیں کیے گئے؟ ان کا کہنا تھا پہلے بھی حکومت نے پانچ سو کے نوٹ تبدیل کیے تھے اور وہ اپنے نوٹ لے کر بینک پہنچ گئی تھیں تو انھیں بتایا گیا کہ ان کے یعنی بینک والوں کے پاس ایسے کوئی آرڈر نہیں آئے وہ اسٹیٹ بینک جا کر پتا کریں ۔

ایک بینک نے انھیں کہا کہ’’ بی بی! یہ تاریخ گزر چکی ہے‘‘وہ بے چاری ساڑھے چار ہزار روپے جوکہ پانچ سو کے نوٹوں پر محیط ہیں لیے کئی بار معلوم کروا چکی ہیں۔ یہاں تک کہ اس حالیہ اعلان کے بعد بھی ان کی جستجو ختم نہ ہوئی اور سوال یہی کہ پانچ سو کا نوٹ ان تمام تبدیل ہونے والے نوٹوں میں شامل کیوں نہیں ہے؟

حکومتیں سرکاری نوٹ کیوں تبدیل کرتی ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور اگر اس کے جواب میں ہم تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ حکومتیں عام طور پر اپنے کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کالا دھن کو روکنے کے لیے، معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے، اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے، ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لیے اور بدعنوانی جیسی شر انگیز حرکات کے لیے کرتی ہیں۔

2016 میں بھارت میں اچانک ہی نریندر مودی کی جانب سے ایک تقریر میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ملک سے پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں کو ختم کردیا جائے گا۔

یہ منصوبہ مودی کے مطابق چھ ماہ پہلے کا تھا اور اس کا مقصد کالے دھن پر قابو پانا اور جعلی نوٹوں سے چھٹکارا پانا تھا۔

9 نومبر 2016 کو مودی نے اپنی تقریر میں یہ اعلان کیا جب کہ اسی تاریخ کو بہت سی ریاستوں میں سونے کی قیمت ایک دم بڑھ گئی۔ لوگ سمجھ گئے کہ اس وقت ان کے لیے سونا خریدنا سودمند ہے، لہٰذا چالیس ہزار تولہ کی قیمت تک جو اس وقت بھارت میں خاصے اونچے درجے پر تھا یہ خریداری کی گئی۔ لوگوں میں عجیب بد دلی سی پیدا ہوگئی۔

دکان داروں نے مقررہ تاریخ سے پہلے ہی پرانے نوٹوں کو لینے سے انکار کردیا، گو اس تاریخ کی توسیع بھی کردی گئی تھی لیکن عوام میں اداسی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

بھارت میں مغربی بنگال کی وزیر اور مودی کی حریف ممتا بنرجی نے اس فیصلے کو سخت اقدام کہا تھا، جب کہ اروند کیجری وال کے مطابق کالا دھن ختم ہونے کے بجائے اسے فروغ ملے گا۔ 2016 سے لے کر 2017 تک بھارت میں بڑے پیمانے پر نوٹوں کی اس منسوخی سے ایک معاشی اور سیاسی صورت حال میں تشویش نظر آتی ہے۔

ریزرو بینک آف انڈیا کی اگست 2017 کی رپورٹ کے مطابق مودی کے منسوخی نوٹ کے وقت بڑے نوٹ 15,440 ارب گردش میں تھے جن میں سے 15,280 ارب روپے واپس بینکوں میں جمع کرا دیے گئے۔

اس طرح ننانوے فیصد رقم قانونی ثابت ہوگئی اور مودی کی کالے دھن کی جے جے کار جھوٹی ثابت ہوئی۔ مودی کا کہنا تھا کہ انڈیا میں 33 فیصد کالا دھن موجود ہے۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ انڈیا کی سہ ماہی معاشی ترقی دو سال کی پست ترین شرح پر پہنچ چکی ہے۔

1991 میں میخائل گورباچوف نے بھی کچھ اسی قسم کی کارروائی کی تھی اور پچاس اور سو روپے کے نوٹ واپس لیے تھے۔ اس وقت روس کی اقتصادی حالت بہت خراب تھی۔

ان کا یہ اقدام مہنگائی پر قابو پانے کے لیے تھا لیکن مودی کی طرح ان کے ساتھ بھی یہ برا ہوا۔ لوگوں میں مایوسی اور ناکامی ابھری، بغاوت ابھری اور سوویت یونین کا زوال ہوا۔ آخر 1998 میں اس فیصلے کو واپس لیا گیا۔ شمالی کوریا میں 2010میں اس کارروائی میں سو کے نوٹ سے دو صفر ہٹا لیے گئے گویا سو کا نوٹ ایک کا رہ گیا۔

اس طرح وہاں کی معیشت پر جو پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی مزید بحران میں گھر گئی اور حکمران پارٹی کے وزیر خزانہ کے ساتھ بہت برا ہوا۔ میانمار، گھانا اور نائیجیریا میں بھی اس طرح کے مسائل ہوئے اور حکومت بھی مسائل کا شکار ہوئی۔

معیشت کو اس کی پٹری پر لانے کے لیے حکومت کو یقینی طور پر بہت سے منصوبے بنانے پڑتے ہیں جس پر عمل پیرا ہونے کے لیے بھی بہت ہمت اور عزم درکار ہوتا ہے۔

پاکستان کی معاشی صورت حال اس وقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ایک محدود رقبے کی حکومت پر بھی باتیں کر رہے ہیں تو دوسری جانب مخالفتوں کا شور ہے۔ ایک جانب طاقت کی للکار ہے تو ایک جانب عوام کی ترستی نگاہیں ہیں، یہ دور اس قدر آسان نہیں ہے۔ کانٹوں کے اس تخت کو جتنی خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔

اس میں بہت سے ہاتھ شامل تھے، کون اپنا تھا، کون پرایا تھا؟ لیکن بس ہمیں یہی یاد رکھنا ہے کہ خلوص سب سے اہم ہے جس کی پکار قدرت تک جاتی ہے، بس یہی ایک شفاف جذبہ ہمارے ملک کو لاکھوں مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود بچا سکتا ہے، کیونکہ عوام کی دعائیں اس سرزمین سے ہمیشہ جڑی رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔