معمار وطن تو زندہ ہے
بھٹو نے کہا اور ایسا ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کی شہادت کے 35 سال بعد بھی بھٹو زندہ ہے۔۔۔
LONDON:
ذوالفقار علی بھٹو شہید ایک زیرک سیاستدان ، مدبر رہنما اور کرشمہ ساز شخصیت تھے۔ انھوں نے سیاست کو سرمایہ داروں کے ڈرائینگ روموں سے نکال کر غریبوں کی دہلیزوں پر لاکھڑا کیا۔اس تبدیلی کی بدولت بے زبان عوام کو زبان ملی اور انھیں اپنے حق کے لیے لڑنے کا سلیقہ آیا۔آج کا نظام بھٹو شہید کی عطا ہے۔ انھوں نے نہ صرف جمہوری سیاست کی بنیاد رکھی بلکہ اسے ایک قابل عمل ، قابل تقلید اور شاندار نظام بنا دیا ۔ ماضی قریب کے ورق الٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس ملک میں مفاد پرستوں نے آمروں کے ساتھ مل کر بھٹو شہید کی روح فلسفے اور نظام سے روگردانی کرتے ہوئے ملکی نظام اور آئین میں بھی کئی طرح کی نقب لگائیں۔ مگر آج اگر اس ملک کو صحیح راستہ اور صحیح سمت ملی ہے تو وہ جمہوریت کی بدولت ہے اور اس جمہوریت کی بدولت جو بھٹو شہید کی سیاست تھی۔اور بھٹو کی سیاست کا مقصد عوامی نمایندگی کا حق وڈیروں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی مٹھی سے نکال کر عوام کی جھولی میں ڈالنا تھا۔ اسی مقصد کے تحت انھوں نے سرزمین بے آئین کو 1973میں متفقہ آئین دیا ، پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات کو شعور دیا، عوام کو عزت نفس اور خود اعتمادی دی۔ بھٹو شہید جانتے تھے کہ عوام کے حق میں مثبت اور پائیدار تبدیلی محض نعروں سے نہیں آسکتی ۔
لہٰذا انھوں نے ایک طرف خلیجی ممالک میں پاکستانی عوام کے لیے روزگار کے بے پناہ مواقع مہیا کیے، مفت تعلیم کے دروازے کھولے تو دوسری جانب پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی، اسٹیل مل کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا ، کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کی تکمیل کی، جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا اور سب سے بڑھ کے تیسری دنیا اور اسلامی دنیا کے اتحاد کے لیے عظیم تر جدوجہد کی بنیاد رکھی۔ 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس اسلامی دنیا سے ہمارے تعلقات کے ضمن میں ایک سنہرا باب ہے۔ اور پاک چین دوستی کا معمار بھٹو ہے ۔ تو ہم نے دیکھا کہ اس ملک کو حقیقی جمہوری فلاحی مملکت بنانے والا بھٹو ، اس ملک کو آئین دینے والا بھٹو، اسلامی دنیا کے اتحاد کا پیامبر بھٹو، پاک چین دوستی کا معمار بھٹو ، ختم نبوت کو آئین اور قانون میں شامل کر کے اسلام کو سرفراز کرنے والا بھٹو، بھارت سے90 زار جنگی قیدی چھڑانے والا بھٹو، مگر بھٹو کے ساتھ کیا ہوا ؟ ایک آمر ضیاء الحق نے یہ درخشندہ چراغ گل کر دیا، ضیاء الحق اسلام کا نام لیوا تھا مگر اس آمر کا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا بلکہ بیرونی اور استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل بنام اسلام اس کا مشن تھا۔ اور اس مشن کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ آمر مطلق کا اقتدار پر ناجائز قبضہ طویل عرصہ کے لیے قائم رہے اور وہ بیرونی آقاؤں کی جنبش ابرو پر ملک کو طویل ترین دہشت گردی ، ناانصافی، لاقانونیت ، منشیات فروشی، اسلحہ کی اسمگلنگ اور عدم استحکام کی آگ میں جھونک سکے۔ اقتدار اور حکومت ضیاء الحق کا حق نہیں تھا مگر اس نے اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا۔ 90 دن میں انتخابات کا وعدہ کیا اور بلاوجہ وعدہ توڑا۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے قوم سے ریفرنڈم کی صورت میں تاریخی فراڈ کیا۔
قدم قدم پر جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیا مگر آج میں عوام کے سامنے ضیاء الحق کے تضاد کی ایک اور مثال رکھتا ہوں۔ ضیاء الحق نے اپنے دور آمریت کے ابتدائی حصہ میں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر پیپلزپارٹی کے کارکنوں، رہنماؤں اور عام لوگوں پر کوڑے برسائے اور تاثر دیا کہ '' اسلامی دور'' میں'' اسلامی سزاؤں'' کا اجراء ہوگیا ہے۔ مگر بھٹو شہید کو ناحق پھانسی پر چڑھانے کے بعد اور اس اطمینان کے بعد کہ بھٹو ایسی عظیم شخصیت کو راستے سے ہٹا کر اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں رہا،اس آمر نے کوڑوں کی سزا موقوف کردی۔ ضیاء الحق نے کچھ عرصہ کوڑوں کی سزا دی اور پھر ہمیشہ کے لیے اس سزا کو ترک کردیا۔ اگر اسلام میں کوڑے تھے تو اس نے اپنے تمام دور میں اس سزا کو کیوں بحال نہ رکھا ؟ اس کا جواب بہت آسان اور سادہ ہے وہ چاہتا تھا کہ بھٹو کی طاقت کو سخت ترین سزاؤں اور ظلم و جبر سے توڑ دے تاکہ اس کے اقتدار پر منڈلاتے خطرات دور ہوسکیں ۔ بھٹو شہید کی پھانسی کے بعد اور'' افغان جہاد'' کے آغاز کے بعد جب اسے مغربی آقاؤں کی آشیر باد حاصل ہوگئی تو اس کو اسلامی سزا کی ضرورت پیش نہ رہی اس لیے میں کہتا ہوں وہ اسلام نہیں تھا بلکہ ضیا کا اسلام تھا جس میں سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے مگر مجرموں سے رعایت برتی گئی۔ اسے یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ اپنی مرضی اور منشاء پر کوڑے مارے اور چاہے تو نہ مارے تو یہ ایک مثال کافی ہے ضیاء الحق کے اسلام کو سمجھنے کے لیے ۔مگر وقت سب سے بڑا منصف ہے اور وقت کا انصاف ہم نے دیکھ لیا کہ بھٹو شہید نے عوام اور ملک سے اپنی سچی لگن کی بدولت قبر سے بھی ملک اور عوام کے دلوں پر حکومت کی اور اس کا قاتل آج تک محروم و تنہا ہے۔ اور عوام بھٹو شہید کے ویژن عمل اور قربانی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے کہ اس نے قتل گاہوں سے خوف کھا کر سچائی کا راستہ نہیں چھوڑا بھٹو نے جو کہا وہ کر دکھایا '' میرا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے۔میں مسلمان ہوں اور مسلمان کی تقدیر خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اور میں اپنے شفاف ضمیر کے ساتھ اپنے رب کا سامنا کر سکتا ہوں''۔
بھٹو نے کہا اور ایسا ہی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کی شہادت کے 35 سال بعد بھی بھٹو زندہ ہے اور عوام کے دلوں کی دھڑکن ہے۔ یہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم جدوجہد اور قربانی کا ثمر ہے کہ آج جمہوریت پھل پھول رہی ہے اور ''ظلمت کو ضیاء'' کہنے والا اب کوئی نہیں۔4 اپریل 1979ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قائداعظم سے کیا گیا اپنا وعدہ سچ کردکھایا اور غریبوں اور محروموں کو عزت نفس اور توقیر دینے والا اپنی خود داری اور انا کا سودا کیے بغیر پھانسی کے تختہ پر جھول گیا۔ 1945میں بھٹو شہید نے قائداعظم کو ایک خط تحریر کیا جب کہ وہ اس وقت اسکول کے طالب علم تھے انھوںنے لکھا ''ہماری تقدیر پاکستان ہے ہماری منزل پاکستان ہے اور ہمیں کوئی نہیں روک سکتا ۔ آپ نے ہم کو انسپائر کیا اور ہمیں آپ پر فخر ہے۔ ابھی میں اسکول میں ہوں اور اپنی مقدس سرزمین کے حل و عقد کی کوئی مدد نہیں کرسکتا ۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب میںپاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کردوں گا'' بھٹو نے یہ کر دکھایا اور اس کی قربانی بہت عظیم تھی۔ اسی لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طرح سقراط زندہ ہے مگر اس کے قاتل مٹ چکے ہیں۔ اسی طرح بھٹو زندہ رہے گا اور اس کے قاتل بے نام و نشان ہو کر تاریخ کے اوراق میں گم ہوجائیں گے۔ کیوں کہ'' ظلمت کی ضیاء'' میں روشنی نہیں اندھیر ا ہوتا ہے ۔
(ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی پر خصوصی مضمون)