یارَب، ایسی چنگاری ہمارے خاکستر میں کیوں نہیں؟

تنویر قیصر شاہد  پير 23 جنوری 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نیوزی لینڈ ہمارے ہاں اپنی کرکٹ ٹیم کی وجہ سے خاصا جانا پہچانا جاتا ہے۔بحرالکاہل میں  سیکڑوں جزائر پر مشتمل، اور آسٹریلیا کے مشرق میں2 ہزار کلومیٹر پر واقع، یہ ملک آبادی کے لحاظ سے ہمارے فیصل آباد شہر کے برابر ہوگا۔ اِس کی50فیصد آبادی کا کوئی مذہب نہیں، جب کہ37فیصد آبادی مسیحی ہے۔

کوئی ڈیڑھ فیصد مسلمان بھی یہاں بستے ہیں۔ اِس کا رقبہ تقریباً 2 لاکھ 68 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ پاکستان سے نصف، مگر نیوزی لینڈ کے شہری اپنی فی کس سالانہ آمدنی کے لحاظ سے پاکستانیوں سے 8گنا زیادہ امیر ہیں۔

امن، شفاف نظامِ حکومت ، عوام کے لیے فوری انصاف کی فراہمی اور مضبوط جمہوریت کی بِنا پر یہ ملک دُنیا کے6اہم ترین اور قابلِ فخر ممالک کی فہرست میں شامل ہے ۔

نیوزی لینڈ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ یہ دُنیا کا پہلا ملک ہے جس نے سب سے پہلے اپنے ملک کے ہر شہری کے لیے کم از کم اتنی اُجرت کا نفاذ کیا جس سے وہ اپنی فیملی کے ساتھ باآسانی اور باعزت گزارا کر سکے ۔

اِس ملک کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے جس نے اِس خطّے میں واقع ممالک میں سب سے پہلے خواتین کو ووٹ کا حق دیا۔

حالیہ برسوں میں نیوزی لینڈ اپنی نوجوان، دیانتدار اور جرأتمند وزیر اعظم، جیسنڈا آرڈرن، کی وجہ سے دُنیا بھر میں مشہور ہُوا۔ جیسنڈا آرڈرن (Jacinda Ardern) کو یہ اعزاز حاصل ہُوا کہ وہ دُنیا کی سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں۔ صرف 37سال کی عمر میں ۔وہ اپنے ملک اور اپنی لیبر پارٹی کی مقبول ترین وزیر اعظم تھیں۔

ہماری محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح ، جیسنڈا آرڈرن نے بھی دورانِ وزارتِ عظمیٰ ایک بچے کو جنم دیا۔ وہ اپنی بچی کو گود میں اُٹھائے وزیر اعظم کے دفتر بھی آجایا کرتی تھیں۔

یوں انھوں نے ثابت کیا کہ وزیر اعظم کی حساس ذمے داریاں بخوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو بھی پوری توجہ کے ساتھ پالا جا سکتا ہے۔ افسوس نیوزی لینڈ کی یہ مشہور اور دیانتدار وزیر اعظم، جیسنڈا آرڈرن، نے چند روز قبل،16 جنوری 2023 کو، اچانک وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر اپنے عوام اور اپنی پارٹی کو حیران و پریشان کر دیا ۔

جیسنڈا آرڈرن پانچ سال وزیر اعظم رہیں ۔ اِس دوران اُن پر کرپشن، بد عنوانی، بے ایمانی ، منی لانڈرنگ، اقربا پروری ،پلاٹ خوری کا ایک بھی الزام نہ لگا۔

اپنے اقتدار کے پانچ برسوں کے دوران جیسنڈا کو تین بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا:(1)ملک میں ایک تباہ کن آتش فشاں پھٹ پڑا،جو بہت سی ہلاکتوں کا باعث بنا (2)ایک متعصب سفید فام نے نماز ادا کرتے نیوزی لینڈ کے مسلمانوں پر گولی چلا دی۔ اِس سانحہ میں 4درجن سے زائد مسلمان شہید ہو گئے (3)کورونا کا پھیلاؤ!جیسنڈا آرڈن نے ان تینوں بحرانوں کادانش و حکمت سے مقابلہ کیا اور دُنیا بھر سے شاباش لی۔

نماز پڑھتے مسلمانوں کے سانحہ شہادت کے بعد محترمہ جیسنڈا نے نیوزی لینڈ کی ساری مسلمان کمیونٹی سے ایسا محبت بھرا اور شفیق برتاؤ کیا کہ اِس حسنِ سلوک سے دُنیا بھر کے مسلمانوں نے جیسنڈا کی ستائش اور تعریف کی ۔

خصوصی طور پر اس سانحہ پر جب جیسنڈا نے یہ الفاظ کہے: ’’نیوزی لینڈ کے تمام مسلمان ہمارے وجود کا ناگزیر حصہ ہیں۔‘‘نیوزی لینڈ کی جملہ مسلمان کمیونٹی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جیسنڈا صاحبہ نے مہینہ بھر سر پر اسکارف بھی اوڑھے رکھا۔

مستعفی ہوتے وقت جیسنڈا نے کہا: ’’ مجھ پر کوئی دباؤ ہے نہ مجھے کوئی دھمکی مل رہی ہے، مجھ پر کرپشن کا کوئی داغ ہے نہ مجھ سے پارٹی کو کوئی شکوہ ، لیکن مَیں مستعفی ہورہی ہوں تاکہ پارٹی اور ملک کے دوسرے اہل لوگوں کو یہ منصب سنبھالنے کا موقع مل سکے ۔‘‘اور جب اُن سے ایک اخبار نویس نے پوچھا کہ انھیں کن الفاظ میں عوام یاد رکھیں ؟ تو جیسنڈا نے مسکراتے ہُوئے کہا: ’’ کوئی یاد کرنا چاہے تو عوام کے لیے ایک مہربان ، عوام کے لیے شفیق، عوام کے لیے خدمت گزار اورملک سے محبت کرنے والی خاتون کی حیثیت میں مجھے یاد کرے۔‘‘

آئینی طور پرجیسنڈاآرڈرن کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت فروری2023 کے پہلے ہفتے ختم ہو رہی ہے ۔ وہ مگر پہلے ہی اقتدار چھوڑ کر گھر چلی گئی ہیں ۔ جاتے ہُوئے یہ بھی کہا کہ ’’ عوام اور ملک کی خدمت کے لیے پانچ سالہ اقتدار بہت ہوتا ہے ۔ اب مَیں اپنے شوہر اوربیٹی کے ساتھ وقت گزارکر زندگی کوانجوائے کرنا چاہتی ہُوں۔ وزیر اعظم کا عہدہ صمیمِ قلب اور نہائت ذمے داری سے فرائض ادا کرنے کا نام ہے۔

میرے استعفے پر وہ لوگ بھی خاموش ہو جائیں گے جو کبھی کبھار مجھ پر تنقید کرتے ہیں۔‘‘جیسنڈا صاحبہ کے یہ الفاظ پڑھے اور سُنے ہیں تو دل میں کئی خیال مچل اُٹھے ہیں: کاش، ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی جیسنڈا آرڈرن ایسا کوئی ایک حکمران ہی ہوتا، کاش ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران میسر آتا جو اقتدار سے چمٹے رہنے کی مسلسل ضد اور ہٹ دھرمی اختیار نہ کیے رہتا، کاش ہماری قسمت میں بھی کوئی ایسا حکمران لکھا ہوتا جو نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم کی مانند صحیح معنوں میں عوام کے لیے شفیق اور عوام کا خدمت گزار ہوتا، کاش ہمارے مقدروں میں بھی جیسنڈا ایسا کوئی حکمران ہوتا جس کے دامن پر کرپشن ، لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کی آلائشوں کا کوئی داغ نہ لگا ہوتا اور جو عوامی تنقید اور ناپسندیدگی پر بروقت ہنستا مسکراتا اقتدار کے ایوانوں سے نکل جاتا ۔

ہمارے مقدر مگر اتنے اونچے کہاں؟ ہمارے خاکستر میں ایسی چنگاری شاید کوئی باقی نہیں رہی۔ بہتری کی اُمید کی سبھی شمعیں شاید گُل ہو چکی ہیں۔ جیسنڈا آرڈرن ایسا حکمران تو شاید پورے عالمِ اسلام کو بھی میسر نہیں۔ پاکستان سمیت سبھی مسلمان ممالک میں جو ایک بار حکمران بنتا ہے تو بس پھر اقتدار کو اپنی وراثت سمجھ لیتا ہے۔

آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کھلواڑ نظر آ رہا ہے، افراتفری اور بے یقینی کی جو آندھیاں چل رہی ہیں، معیشت بدحالی کے جس آخری کنارے پر پہنچ گئی ہے، حکمرانوں نے جس وحشت سے عوام کا جینا جہنم بنا دیا ہے ، اربوں ڈالرز کے غیر ملکی قرضے جس طرح ملک کی کمر توڑ رہے ہیں ، ہم دُنیا بھر میں کشکول لیے پھر رہے ہیں اور کوئی ’’خیر‘‘ ڈالنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ ہمارے ہر قسم کے حکمرانوں میں کوئی ایک بھی جیسنڈا آرڈرن ایسا عوام دوست نہیں ۔ہمارے ہر حکمران نے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو کر اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کو اولین ترجیح دی ۔ نتیجہ پھر یہی نکلنا تھا جو ہمارے سامنے ہے ۔

اقتدار کی ہوس اتنی بڑھ گئی ہے کہ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جو جماعت اکثریت میں جیت سے ہمکنار ہُوئی ہے ، اُسے سندھ کا طاقتور اور مقتدر گروہ جیتنے والے کو اُس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ۔ کیا آصف علی زرداری ، زیڈ اے بھٹو کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں؟انھیں شاید 1977 میں بھٹو صاحب کی انتخابی دھاندلی کا حشر یاد نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔