دربار محل

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 5 فروری 2023
ریاست بہاولپور کی عظمتِ رفتہ اور جاہ و جلال کا امین ۔ فوٹو : فائل

ریاست بہاولپور کی عظمتِ رفتہ اور جاہ و جلال کا امین ۔ فوٹو : فائل

دربار محل بہاولپور کے دربار کمپلیکس میں واقع ہے۔ اس کمپلیکس میں نواب آف بہاولپور کے تین محلوں (دربار، نشاط او فرخ) سمیت ایک بارہ دری، مسجد اور وسیع و عریض سرسبز لان واقع ہیں۔

تاریخ؛اس محل کی تعمیر”نواب بہاول خان عباسی پنجم” نے 1904 میں شروع کروائی تھی جو 1907 تک جاری رہی۔ اُسی سال آپ کی وفات کے بعد اس محل کو منحوس خیال کرتے ہوئے اس کا بچا کھچا کام روک دیا گیا۔ اس دوران آپ کے جانشین ”نواب صادق محمد عباسی” کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔

بیس سال بعد جب وہ واپس لوٹے تو نور محل میں ان کی تاج پوشی کی گئی اور انہیں باضابطہ طور پر ریاست بہاول پور کا نواب بنا دیا گیا۔ نواب صاحب نے دربار محل کا رُکا ہوا کام دوبارہ سے شروع کروا کہ اسے تکمیل تک پہنچایا۔

اِس محل کا پرانا نام ” ْمبارک محل” تھا جو نواب صاحب کی ایک بیگم سے موسوم تھا لیکن پھر جب نواب صاحب نے یہاں اپنا دربار لگانا شروع کیا تو اس کو دربار محل کہا جانے لگا۔ یہ محل ریاست کی اعلیٰ عدالت کے طور پہ بھی استعمال ہوتا تھا۔

یہ محل 1947ء میں نواب بہاولپور نے پاکستان کے مخدوش معاشی حالات کے تناظر میں سرکاری اور افواج پاکستان کے دفاتر کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیا تھا۔ یہ محل 1932 سے 1955 تک ریاست بہاولپور کے وزیراعظم کا دفتر رہا اور پھر 1966ء میں یہ محل پوری طرح پاک فوج کے زیرتصرف آ گیا جہاں اب پاک فوج کی بہاولپور رجمنٹ کا مرکزی دفتر ہے۔

طرزِتعمیر؛اس محل کی عمارت بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ غور کریں تو اس عمارت میں تین مختلف مذاہب کی نمائندگی ملتی ہے۔ جھروکے اور بالکونیاں جہاں مسلم فنِ تعمیر کا حصہ ہیں وہیں محرابوں اور کھڑکیوں پر ہندو طرزِتعمیر کی چھاپ نمایاں ہے جب کہ ہشت پہلو میناروں پر بنے سفید گنبد، سکھ گردواروں سے مشابہہ ہیں۔

لال اینٹوں سے بنا یہ محل لاہور کے شاہی قلعہ سے مشابہ ہے اور سفید و لال رنگ کا مرکب ہے۔ دالان اور دیواریں لال جب کہ کھڑکیاں، چھت اور گنبد سفید ہیں۔

یہ محل جس چبوترے پر بنایا گیا ہے وہ چاروں طرف سے برابر اور متناسب (سمیٹریکل) ہے۔ مرکزی عمارت دو جب کہ چاروں مینار تین منزلہ ہیں۔ عمارت کے چاروں طرف دالان و محرابی کھڑکیاں ہیں جن کہ بیچ میں مرکزی دروازہ ہے۔ دروازوں کے محرابی کونوں پر ریاست بہاول پور کی سرکاری مہر جب کہ کھڑکی کے چھجے پر بہاولپور رجمنٹ کا نشان بنایا گیا ہے۔

محل کا اندرونی حصہ ایک مرکزی ہال اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔ کمرے چوںکہ آج کل افواجِ پاکستان کے استعمال میں ہیں سو عوام کو صرف اندرونی ہال اور میس روم تک رسائی حاصل ہے۔

ہال کی دیواروں پر ہلکا سنہری رنگ کیا گیا ہے جب کہ کناروں پر خوب صورت نقش و نگار بنے ہیں۔ اوپری حصے پر قیمتی لکڑی کا ایک چھجا بنا ہے جب کہ درمیان میں چھت سے ایک روایتی جھومر لٹک رہا ہے۔ اسی جھومر کے عین نیچے شیشے کے شو کیس میں ”پیلیکن” کا ماڈل رکھا گیا ہے۔

چہار جانب دیواروں پر عباسی خاندان کے نوابوں کی تصاویر اس کے رعب اور کشادگی میں اضافہ کرتی ہیں۔ یہ نواب صادق محمد خان عباسی اول (1723-1720) سے لے کر نواب عباس خان عباسی (1988-1966) تک جاتی ہیں۔ پاکستان و ریاست بہاول پور کا جھنڈا اور ریاست کی قومی مہر بھی دیوار پر آویزاں کی گئی ہے۔

میرون دروازوں کے ساتھ یورپی اور ریاست کے کاری گروں کا بنا قیمتی فرنیچر اور دبیز قالین اس کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔

فریادی گھنٹی و اطالوی فوارہ؛دربار کی عمارت کے سامنے لان میں بائیں جانب فریادی گھنٹی رکھی گئی ہے جو ”جیلٹ اینڈ جانسن” کمپنی نے نواب صاحب کو 1906 میں تحفتاً دی تھی جسے شاہی محل کے مرکزی دروازے پر عوام کی سہولت کے لیے لٹکایا گیا تھا۔ فریاد کرنے والے اس گھنٹی کو بجا کہ اپنا مدعا بیان کیا کرتے تھے۔ کانسی کی بنی اس سنہری گھنٹی کا وزن ایک ٹن ہے اور اس پہ یہ الفاظ تحریر ہیں؛

GILLETT & JOHNSTON  FOUNDERS CROYDON, ENGLAND.

گھنٹی کے سامنے بائیں طرف دیوانِ خاص اور دائیں طرف دیوان عام ہے۔ شاہی دربار کے اوقات کے دوران دیوانِ خاص میں اہم مہمان اور امراء بیٹھا کرتے تھے جب کہ عام عوام دیوانِ عام میں بیٹھا کرتے تھے۔

محل و بارہ دری کے درمیان میں لگا فوارہ اٹلی سے 1906 میں منگوایا گیا تھا۔ اسپینش آرکیٹیکٹ کا بنایا گیا یہ فوارہ سنگل پیس ہے اور اب تک کارآمد ہے۔

بارہ دری؛محل کے عین سامنے ایک چبوترے پر خوب صورت بارہ دری بنائی گئی ہے۔ یوں تو بارہ دری میں بارہ دروازے ہوتے ہیں لیکن یہاں اندر اور باہر اٹھائیس، اٹھائیس دروازے ہیں جو برآمدے کی صورت چوکور شکل میں موجود ہیں۔

ایک جانب بیچ کی تین محرابوں کے درمیان چبوترہ بنایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جگہ نواب صاحب اپنا دربار لگایا کرتے تھے جہاں فریادی اپنی بات رکھتے تھے۔ اس چبوترے پر اب نواب صادق محمد خان عباسی پنجم کا ایک خوبصورت مجسمہ رکھا ہوا ہے۔

محرابی دروازوں کے وسط میں ایک بڑا حوض ہے جس میں پانچ چھوٹے فوارے لگائے گئے تھے۔ چوںکہ یہاں گرمی زیادہ پڑتی ہے سو پانی کا یہ حوض بارہ دری کے ساتھ مل کہ اس جگہ ہوا کی مسلسل فراہمی میں مدد دیتا تھا تاکہ دربار کے وقت سائلین کو دقت نہ ہو۔

عجائب گھر؛اسی بارہ دری کے ایک جانب تین کمروں پر مشتمل ریاست بہاول پور کے متعلق ایک چھوٹا میوزیم بنایا گیا ہے۔ ایک کمرے میں ریاست بہاولپور کی ثقافت (لباس، برتن، زیور، بودوباش، بلاک پرنٹنگ، چرخہ) کو دکھایا گیا ہے جب کہ دوسرے میں ریاست کی شاہی فوج کی وردی، تمغے، تصاویر، سِکے اور دیگر معلوماتی بورڈز لگے ہیں۔

بیچ والے ہال میں آپ کو اس ریاست کے شان دار ماضی کی جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ یہاں مملکت خداداد بہاول پور کی جاری کردہ ڈاک ٹکٹیں، سِکے، تمغے (جن میں تمغہ ستلج، حج، جشن عہد حکومت تاج پوشی، پولیس، تمغہ استقلال دوسری جنگ عظیم شامل ہیں)، ریاست کا قومی نشان، نواب صاحب اور ان کے محافظوں کی وردیاں اور ان پہ لگے بیج، عید کارڈ، ولی عہد کی شادی کا دعوت نامہ، میس کا مینو، چاندی کے برتن اور سِگار شامل ہیں۔

ایک کونے میں نواب صاحب کی اپنی بیگم، قائد اعظم محمد علی جناح، محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان، جواہر لال نہرو، ایوب خان، حفیظ جالندھری اور خواجہ ناظم الدین کے ساتھ مختلف مواقع پر کھینچی گئی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان میں ایک خاص تصویر وہ ہے جس میں وائسرائے ہندوستان برصغیر کی ریاستوں کے راجوں مہاراجوں کے ساتھ براجمان ہیں۔

ان میں نواب آف ریاست بہاولپور کے علاوہ ریاست خیرپور، الور، گوالیار، جودھپور، جیسلمیر، ریوا، کَچھ، سیتامن، ملیر کوٹلا، دھر، بیکانیر، نابھ، راج گڑھ، کوٹہ، سِکم، پٹیالہ، ڈھولپور، کولہاپور، راجکوٹ، سنگلی سمیت دیگر ریاستیں شامل ہیں۔

اس کمرے میں ریاست کی اہم عمارتوں، شاہی محلات سمیت نواب صاحب کے مملکت پاکستان کو دیے گئے تحائف اور نقدی کی تفصیل بھی آویزاں ہیں جس کی تفصیل یہاں لکھی تو یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا۔ یہ تمام معلومات کسی اور مضمون میں آپ تک پہنچاؤں گا۔

شاہی پرچم؛یہاں چوںکہ بارہ دری میں ریاست کا جھنڈا بھی لہرا رہا ہے اس لیے اس کے بارے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

مملکت خداداد بہاولپور کا جھنڈا، کویتی پرچم کے طرز پر چار رنگوں اور چاند تارے پر مشتمل تھا۔ بائیں جانب کالا جس میں سفید چاند تارہ بنا تھا، اوپر سرخ، درمیان میں پیلا اور سب سے نیچے سبز رنگ۔

چوںکہ نواب صاحب خاتم النبینؐ کے پیارے چچا کی اولاد میں سے تھے، سو کالا رنگ عباسیہ خاندان کے جدِامجد حضرت عباس رض کی نمائندگی کرتا ہے۔ لال رنگ اس ریاست کے لیے بہنے والے خون کو، پیلا رنگ ریاست کے وسیع رقبے پر پھیلے چولستان کی سُنہری ریت کو اور سبز رنگ مسلم اکثریت کو ظاہر کرتا ہے۔

پیلیکن؛محل کے لان میں سفید پیلیکن بھی گھومتے پھرتے مل جاتے ہیں جو ریاست کا قومی پرندہ تھا۔ پیلیکن، اصل میں سرد علاقوں کا آبی پرندہ ہے جو زیادہ تر روس کے علاقے سائیبیریا، شمالی امریکا، میکسیکو، کریبیئن اور آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے۔

فی الوقت روئے زمین پر اس کی آٹھ اقسام موجود ہیں جن میں سے معدومی کے خطرے سے دوچار ایک قسم پاکستان، بھارت اور انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

سفید پروں اور نوک دار پیلی چونچ پرندہ ہے جو شدید سردی میں جنوبی علاقوں کی طرف ہجرت کرتا ہے۔ ان کو رہنے کے لیے معتدل درجہ حرارت درکار ہوتا ہے۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ قحط، خشک سالی یا کسی بھی آفت میں اپنے بچوں کو بھوکا نہیں مرنے دیتا، بلکہ ایسی کوئی مصیبت پڑنے پر اپنی نسل کی بقا کے لیے اپنی چونچ سے اپنا سینہ چاک کر کے اپنا گوشت اپنے بچوں کو کھلاتا ہے۔

یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس کی اسی خاصیت سے متاثر ہو کہ نواب آف بہاولپور نے اسے ریاست کا قومی پرندہ قرار دیا اور ریاست کی سرکاری مہر یا نشان میں بھی اسے جگہ دی۔

چوںکہ مادہ پیلیکن اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوتی ہے، سو انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول نے پیلیکن کے نشان کو اپناتے ہوئے خود کو ”چرچ آف انگلینڈ کی ماں” قرار دیا۔ پیلیکن لاکٹ پہنے ہوئے ان کی ایک تصویر بہت مشہور ہوئی تھی جسے ”پیلیکن پورٹریٹ” کہا جاتا ہے۔

عیسائیت میں اس پرندے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگا لیجیے کہ پرتگال کے بادشاہ جان دوئم، آکسفورڈ اور کیمبرج کے ذیلی کالجوں، بہت سی رفاحی تنظیموں اور پراگ کی چارلس یونیورسٹی کے سرکاری نشان یا مہر میں بھی پیلیکن موجود ہے۔

پیلیکن کو قدیم مصر میں موت اور حیات بعد الموت سے جوڑا جاتا تھا۔ مصر کے پرانے مقبروں اور عبادت گاہوں کی دیواروں پر اس پرندے کی تصاویر بھی ملی ہیں۔ یہودی مذہب میں اسے کھانے کی سختی سے ممانعت ہے۔

اس وقت دربار محل میں تین پیلیکن موجود ہیں۔

یہ تھی دربار محل اور اس سے جڑی چیزوں کی وہ معلومات جو آْپ سب تک پہنچانے کو یہ دل مچل رہا تھا۔ اس محل میں عوام کا داخلہ ممنوع ہے البتہ آرمی، ڈی سی یا کور کمانڈر کی اجازت لے کر جایا جا سکتا ہے۔

شاید آپ اس فیصلے کو غلط کہیں لیکن میرے نزدیک ریاست کے اس خوب صورت اثاثے کی حفاظت ایسے ہی ممکن ہے۔ تبھی آپ کو یہ جگہ صاف ستھری اور کچرے سے پاک ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔