تنوع اور وفاقیت سے انکار کا نتیجہ (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 5 فروری 2023
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان اپنی 75 سالہ تاریخ کے دوسرے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے۔ ایک بحران وہ تھا جس کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوا۔

پاکستان کا مشرقی بازو جہاں پاکستانیوں کی اکثریت رہتی تھی ہم سے الگ ہوگیا اور آج بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد وخود مختار ملک کے نام سے دنیا میں عزت اور شہرت کما رہا ہے۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیوں اور کیسے بنا، اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔

اس حوالے سے اس بات پر اتفاق رائے موجود ہے کہ ہم نے بنگالی بولنے والے پاکستانیوں کو ایک قومی اور ثقافتی اکائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جس سے ان میں ناراضی اور احساس بیگانگی عروج کو پہنچ گیا لہٰذا جب 1970 کے عام انتخابات کے مینڈیٹ کو تسلیم سے انکار کیا گیا تو انھوں نے اپنی راہیں ہم سے جدا کر لیں۔ 1971میں آدھے سے زیادہ حصہ ہم سے الگ ہوگیا۔

یہ ایک دکھ کی بات تھی کیونکہ وہ جانے والے پاکستان کے اندر رہ کر اپنے ثقافتی تنوع کو برقرار رکھتے ہوئے ایک حقیقی وفاقی جمہوری نظام کے آرزو مند تھے ، تاہم یہ امر زیادہ دکھ دیتا ہے کہ ہمارے بالا دست طبقے نے اس غیر معمولی واقعہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور باقی ماندہ پاکستان میں بھی ماضی کا رویہ جاری رکھا۔

انھوں نے اس حقیقت کا اعتراف اب تک نہیں کیا ہے کہ پاکستان ایک کثیر ثقافتی جہت رکھتا ہے اور اس کو متحد و مستحکم رکھنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ ثقافتی وفاقیت کے اصول کو تسلیم کیا جائے جو ایک وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس اہم موضوع پر جامی چانڈیو نے ایک اعلیٰ پائے کا مقالہ تحریر کیا ہے جو کتابی صورت میں شایع ہوا ہے۔

جامی ایک اسکالر، ادیب اور دانشور ہیں۔ اپنی کتاب ’’ ثقافتی وفاقیت۔ پاکستان میں کثیر جہتی میں یکجہتی ‘‘ میں انھوں نے اس موضوع کے مختلف پہلوئوں کو بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے مذہبی شدت پسندی کی زد میں ہے۔ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

جامی چانڈیو کی مذکورہ کتاب کے ایک باب میں پاکستان میں مذہبی تنوع اور اس کے تحفظ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو موجودہ حالات کے تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جامی چانڈیو اپنے تجزیے کا آغاز پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں جناح صاحب کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کرتے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا ’’آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات پات یا عقیدے سے ہو، اس کا اس (ریاست) سے کوئی لینا دینا نہیں۔

ہم اس بنیادی اصول سے اپنا آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے برابر کے شہری ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مسلمان ، مسلمان نہیں رہیں گے اور ہندو، ہندو نہیں رہیں گے، مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر ایک انفرادی شخص کا انفرادی ایمان ہے، لیکن ایک ریاست کے شہری ہونے کے ناتے۔‘‘

جناح صاحب کی تقریر کے بعد وہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ دنیا کی تمام معیاری اور عوامی جمہوریتوں میں انسانی حقوق کے تصور اور چارٹر کو آج کے دور میں زیادہ اہمیت اور عزت دی جارہی ہے اور عالمی طور پر تمام جمہوری وفاقی مملکتوں میں تنوع کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دی جارہی ہے۔

مذہبی اقلیتیں جن کو دراصل اقلیت کہنے کے بجائے دیگر مذاہب کے لوگ یا ان کو ان کی مذہبی شناخت سے شمار کیا جانا چاہیے، جمہوریت اور وفاقیت میں اہم خصوصیات کے حصے تصور کیے جاتے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں کی عددی ساخت اور تناسب سے قطع نظر تمام معیاری جمہوریتوں اور وفاقی ممالک میں ان کے معیار کو مذہبی اقلیتوں کی حیثیت، برابری، حقوق اور تحفظ اور شناخت کے سوالوں کے ساتھ براہ راست مشروط کردیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں سے منسلک اکیڈمک مطالعات کو دنیا میں اور خاص طور پر مغربی ممالک کے علمی مباحثوں میں خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔ مغربی اکیڈمک سیاسی حلقوں میں 90 کی دہائی سے شہریت ، کثیر ثقافیت اور جمہوری قومی ریاست میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے موضوعات میں دلچسپی کا رجحان بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وہی زمانہ ہے جب اقوام متحدہ نے مقامی لوگوں کے حقوق کے اعلامیے کو تشکیل دیا تھا۔

مذہبی تنوع کے حوالے سے جامی چانڈیو جناح صاحب کے نظریہ کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ اگرچہ ملک کے بانی محمد علی جناح نے 19 فروری 1948کو اپنے ریڈیو خطاب میں واضح طور پر کہا تھا کہ ’’کبھی غلطی نہ کیجیے گا یا اس غلط فہمی کا شکار نہ رہیے گا، پاکستان ایک مذہبی ریاست یا اس طرح کی کوئی چیز ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود اس نقطہ نظر کو نظرانداز اور عملی طور پر رد کر کے پس پشت ڈال دیا گیا اور 1956 کے دستور میں رسمی طور پر پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ظاہر کیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ یہ دستور 1956 میں ون یونٹ کے دور میں تشکیل دیا گیا تھا جو کہ صریحاً جمہوری اصولوں اور وفاقیت کے تقاضوں کی نفی کی عملی صورت تھا۔

اس لیے ستر سال گزر جانے کے باوجود ملک کے بہت سے روشن خیال حلقے اس مخصوص تناظر میں جناح صاحب کے پیش کردہ اس وژن پر عمل کرنے کے مطالبات کرتے رہے ہیں ، اگرچہ پاکستان میں نوے فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے لیکن اس حیثیت کے باوجود دیگر مذاہب کے گروہ، مذہبی اقلیتوں کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، جیسا کہ مسیحی، ہندو، سکھ، قادیانی، پارسی، بہائی، بدھ مت اور جین مت کے ماننے والوں کے ساتھ چترال سے کلاشا اور اس طرح کے دیگر ثقافتی گروہ شامل ہیں۔

آگے چل کر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی چند بہتر مثالوں کا ذکر کرتے ہوئے جامی کہتے ہیں کہ ’’ بظاہر تو پاکستان جیسے معاشروں اور ملکوں میں مذہب اب بھی تنازعات کا ایک سبب اور محرک نظر آتا ہے، لیکن اس کے برعکس یہ مذہبی طور پر متنوع معاشروں میں ایک روادار اور اتحاد کو یقینی بنانے والی محرک ایک قوت بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے روادار ملکوں اور معاشروں میں تمام مذاہب کا ریاست کی طرف سے یکساں احترام ، تحفظ اور یقینی بنایا جانا لازمی ہوتا ہے۔

اس میں یہ سوچ درکار اور لازمی ہوتی ہے کہ یہ تسلیم کیا جائے کہ عقیدہ یا مذہب ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے، جس کو ریاست اور ریاستی امور سے دور رکھنا لازمی ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947 کو اسمبلی کے فلور پر یہی بات واضح طور پر محمد علی جناح نے بھی کی تھی، جس کو ان کی وفات کے بعد 1949کی قرارداد مقاصد کے پس پشت ڈال دیا گیا اور اب تک اس پر عمل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان یا صورت نظر نہیں آتی۔

اصولی طور پر پاکستان کے دستور کی تمہید 1949 کی قرارداد مقاصد کی جگہ یہ تقریر ہونی چاہیے۔ دستور ہی ہر شہری کی برابر حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس پر عمل ہونا ہر شہری کا ایک جمہوری اور وفاقی ریاست میں بنیادی حق ہوتا ہے، اس طرح آئین میں کسی بھی صورت میں تفریق کو ڈال دینا ایک جمہوری اور وفاقی ریاست کی روح کو مجروح کردیتا ہے۔ گو کہ پاکستان نے اس حوالے سے بہتر مثالوں سے آغاز کیا تھا جس کو بعد میں سوچ اور ترجیحات میں تبدیلیوں کی وجہ سے صریحاً تبدیل کر دیا گیا۔

مثال کے طور پر پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی صدارت ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم لیگی تھے، جو کہ بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر قانون و انصاف بھی بنے۔ اس طرح سر ظفر اللہ خان پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ بنے جو کہ عقیدے کے اعتبار سے ایک احمدی تھے۔

پاکستان کے پہلے چار گورنروں میں سے تین عیسائی تھے اور اس طرح پاکستان کے پہلے تینوں افواج کے سربراہان بھی عیسائی تھے۔ اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں اس حوالے سے موجود ہیں ، لیکن 1949کے بعد یہ صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ یہ دراصل محمد علی جناح کے وژن سے انحراف کا آغاز تھا۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔