عام انتخابات؛ مسائل کا حل عوامی فیصلے ہی سے ممکن ہے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  جمعرات 9 فروری 2023
سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، چیف جسٹس  عمر عطا بندیال کے ریمارکس (فوٹو فائل)

سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس (فوٹو فائل)

 اسلام آباد: سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے ہی سے ممکن ہے۔

نیب قوانین میں ترامیم کے کیس میں دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عام انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اسپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022ء میں عام انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھی گئی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے ہی سے ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: موجودہ اور پچھلی حکومت میں نیب ترامیم سے مستفید افراد کے نام سامنے آگئے

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم پر عمران خان کے حق دعویٰ نہ ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184 تھری پر محتاط رہے۔ اس کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قرار دے گی تو معیار گر جائے گا۔ آرٹیکل 184 تھری کا اختیار عوامی معاملات میں ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔ ملک میں شدید سیاسی تناؤ اور بحران ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی۔ پی ٹی آئی نے پتا نہیں کیوں پھر پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار عمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں۔ عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے، جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے۔ ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔ آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین لا تھا۔ عدالت نے 1993ء میں قرار دیا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔

مزید پڑھیں: نیب ترامیم کیس کے ذریعے نیب قانون پر سرخ لکیر مقرر کی جائے گی،چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے۔ اس کیس میں عمران خان کا حق دعویٰ ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ نہیں بنتا۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی شخص پارلیمان سے نکل کر عدالت آیا ہو۔اس طرح سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک شخص جب اقلیت میں ہے اور اس کے حقوق متاثر ہوں گے تو وہ عدالت کے سوا کہاں جائے؟۔ جو بھی ضروری ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انتخابات سے قبل قانون میں وضاحت ضروری ہے۔ پارلیمنٹ چھوڑنے کے بعد ملک میں انتخابات کے لیے ہر کسی کو ایک سے زائد نشست پر انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت میں ایک شخص کو ایک ہی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ ایک سے زیادہ نشست سے انتخابات لڑنے سے ہار یا جیت کی صورت میں عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ؛ نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست سماعت کیلیے مقرر

چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ذوالفقار بھٹو نے ایک سے زائد سیٹ پر انتخابات لڑے تھے۔ بلا مقابلہ نشست جیتی تو باقی انتخابات معمول کے مطابق ہوئے تھے۔ اس موقع پر وکیل نے کہا کہ یہ 1970ء سے پہلے کا معاملہ تھا۔ عوام نے بھٹو کے بلا مقابلہ جیتنے کی بھاری قیمت ضیا کے 11 سالوں کی صورت میں اتاری تھی۔ ایک عدالت جمہوریت نہیں بچا سکتی۔

وکیل مخدوم  علی خان نے کہا کہ 40 سال پہلے ایک بین الاقوامی اخبار میں آرٹیکل لکھا گیا۔  آرٹیکل کے مطابق لوگ سیاستدانوں کو اپنی پہچان چاہتے ہیں نہ ہی ججز سے حکومت کرانا۔عدالت حکومت نہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کوئی حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے۔ سیاسی خلا عوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے۔ جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتے ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوئے تو عدالتوں میں چلی گئی۔ اب تمام بحث پارلیمان کے بجائے عدالتوں میں ہو رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ عمران خان کو بلاکر پوچھا جائے کہ اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا عدالت اسمبلی بائیکاٹ پر کسی کا حق دعویٰ مسترد کر سکتی ہے؟۔ نیب ترامیم صرف اپنے فائدے کے لیے کی گئیں۔ نیب ترامیم چند افراد کے لیے کی گئیں جن کے اپنے مفادات تھے۔

وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ ارکان کے نیب کے حوالے سے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ عمران خان نے ہنگامی بنیادوں آرڈیننس لاکر نیب قانون میں ترمیم کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس عارضی قانون سازی ہوتی ہے، حالیہ ترامیم مستقل نوعیت کی ہیں۔ آرڈیننس لانے کی وجہ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونا بھی ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان میں ہونے والی بحث میں حصہ نہ لینے کی وضاحت کا بھی انتظار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ عمران خان کے آرڈیننس اور حالیہ ترامیم میں کیا فرق ہے؟، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے نیب قانون لایا گیا۔نیب قانون پر پارلیمان میں بحث عمران خان کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ سینیٹ میں تحریک انصاف موجود تھی، بحث بھی ہوئی۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب عمران خان نے حکومت چھوڑی تو ترامیم قائمہ کمیٹی میں تھیں۔ پی ٹی آئی دور میں 2021ء میں 5 نیب آرڈیننس لائے گئے۔ عمران خان نے صرف حکومت جانے پر نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔ کیا پتا عمران خان عدالت میں آ کر کہیں کہ انہوں نے نیب ترامیم پڑھی ہی نہیں ہیں۔

نیب قوانین میں ترامیم کے کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے کی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 10 فروری تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔