کراچی والے اسٹیڈیم کیوں نہیں آتے؟

سلیم خالق  بدھ 1 مارچ 2023
چاہے باہمی سیریز ہو یا پی ایس ایل اسٹیڈیم جانے کو تیار نہیں،اس کی کیا وجوہات ہیں۔ فوٹو فائل

چاہے باہمی سیریز ہو یا پی ایس ایل اسٹیڈیم جانے کو تیار نہیں،اس کی کیا وجوہات ہیں۔ فوٹو فائل

کیا کراچی کی عوام میں کرکٹ کا شوق ختم ہو گیا؟ گزشتہ کئی روز سے یہ سوال زیربحث ہے، ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد آبادی کے حامل شہر میں اگر 34 ہزار شائقین کی گنجائش والا اسٹیڈیم بھی مکمل نہ بھر سکے تو سوالات تو اٹھیں گے۔

ہم باتیں تو بڑی کرتے تھے کہ ملک میں کرکٹ واپس آنی چاہیے،سونے میدان آباد کریں، اب جبکہ ایسا ہو چکا تو چاہے باہمی سیریز ہو یا پی ایس ایل اسٹیڈیم جانے کو تیار نہیں،اس کی کیا وجوہات ہیں، میں نے خود بھی سوچا اور کئی لوگوں سے بھی بات کی تو مختلف رائے سامنے آئی۔

نیوزی لینڈ سے ٹیسٹ سیریز میں چلیں مان لیتے ہیں لوگ اس لیے نہیں آئے کہ پانچ روزہ کرکٹ میں دلچسپی کم ہو چکی ہے مگر ٹی ٹوئنٹی پی ایس ایل میں کیوں اسٹیڈیم آدھا بھی نہ بھر سکا؟ جو لوگ کراچی میں نہیں رہتے ان کی معلومات کیلیے میں بتاتا چلوں کہ یہاں بھی اسٹیڈیم شہر کے درمیان میں واقع ہے۔

میچ کے وقت شہریوں کو ٹریفک کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمارے معاشی حالات بہت ابتر ہیں لیکن جب کبھی ملک میں خوشحالی آئے، ایک کام کرکٹ اسٹیڈیم کو شہر سے دور لے جانے کا کرنا ہوگا، وہیں قریب کوئی فائیو اسٹار ہوٹل بن جائے تو عوام کو بھی یہ پریشانی نہیں ہو گی کہ ٹیموں کے جاتے وقت سڑکیں بند کر دی جائیں گی۔

خیر یہ تو بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور نجانے ایسا ہو بھی سکے یا نہیں، فی الحال شائقین کو سہولتیں دینی چاہیئں، پی ایس ایل میں ٹکٹوں کے نرخ بہت زیادہ رکھے گئے، جنرل انکلوژر کا ٹکٹ ہی ایک ہزار روپے کا تھا، ملکی معاشی حالات سب کے سامنے ہیں، کسی کی فیملی میں اگر 4 افراد ہیں تو چار ہزار کے ٹکٹ ہی آ گئے، پھر آنے جانے کا کرایہ،اسٹیڈیم میں مہنگا کھانا پینا ان سب چیزوں کے اخراجات لگا لیں تو ایک میچ پر ہی 7،8 ہزار روپے خرچ ہو جائیں۔

اس مہنگائی کے دور میں کون سا عام آدمی ایسی تفریح کا متحمل ہو سکتا ہے، بعد میں پی سی بی نے انڈر 18 کیلیے ٹکٹوں کی قیمت آدھی کر دی مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی، ایسے فیصلے پہلے ہونے چاہئیں، کم از کم جنرل انکلوژر کا ٹکٹ تو 300،400 کا رکھتے پھر شاید کچھ رونق لگ جاتی، ایک اور مسئلہ ٹریفک کا تھا۔

سڑکیں بند ہونے سے لوگ پریشان ہوجاتے تھے مگر اب اس حوالے سے بہتری نظر آئی، اسٹیڈیم کے سامنے سے بھی ٹریفک گذرتا رہا،البتہ پل کا ایک ٹریک میچ کے دن بند کر دیا جاتا ہے، اسٹیڈیم سے تھوڑے فاصلے پر ریڈ لائن بس پروجیکٹ کا تعمیراتی کام بھی چل رہا ہے۔

اس کے باوجود ماضی جیسا ٹریفک جام دیکھنے میں نہیں آیا،شاید اس کی وجہ کراؤڈ کا کم ہونا بھی بنا، مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب حسن اسکوائر سے ہزاروں لوگ پیدل اسٹیڈیم کی جانب جاتے نظر آتے تھے اب تو مین گیٹ کے باہر ہی کچھ شائق نظر آتے ہیں،ٹرانسپورٹ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، لوگوں کو کافی دور سے پیدل چل کر آنا پڑتا ہے۔

اپنی کار میں آئیں تو پارکنگ ہی ڈھونڈتے رہیں جو بہت دور ہی ملتی، اس حوالے سے بھی تھوڑی بہتری تو آئی ہے مگر مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی، اگر صرف پی ایس ایل کی بات کریں تو کراچی کنگز کے میچز میں بھی زیادہ کراؤڈ نہیں آیا، کراچی والے ٹیم کو اون  نہیں کرتے، لاہور قلندرزکے میچ میں دیکھ لیں گنجائش سے زیادہ لوگ موجود ہوتے ہیں۔

پیر کے میچ میں ٹی وی پر دکھایا گیاکہ اسٹیڈیم کے باہر بھی شائقین کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں،کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر مقامی کرکٹر سرفراز احمد کنگز کے کپتان ہوتے تو شاید بات اور ہوتی لیکن اگر یہ منطق مان لیں تو قلندرز کے کپتان شاہین شاہ آفریدی تو مردان کے ہیں لاہور کی ٹیم کو مقامی شائقین کیوں اون کرتے ہیں؟ دراصل بات مارکیٹنگ کی ہے عاطف رانا، ثمین رانا نے ٹیم کو ایسا برانڈ بنایا جسے لوگ اپنا سمجھتے ہیں،دیگر فرنچائزز کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

وہ تو شکر ہے پی سی بی کا پنجاب حکومت سے تنازع حل ہو گیا اور میچز لاہور سے کراچی منتقل نہیں ہوئے ورنہ نیشنل اسٹیڈیم میں کم کراؤڈ کے ساتھ میچز سے اچھا تاثر سامنے نہیں آتا، پہلے تو سیکیورٹی اور کوویڈ کی وجہ سے مسائل ہوئے جس کی وجہ سے ایونٹ کو یو اے ای منتقل کرنا پڑا تھا اس بار تو آپس کے اختلافات نے لیگ کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

نجم سیٹھی کی بات بھی ٹھیک تھی اگر ایک بار سیکیورٹی کیلیے کسی صوبائی حکومت کو بھاری رقم ادا کر دی جاتی تو پھر یہ روایت ہی پڑ جاتی،شکر ہے معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو گیا، لاہور میں 2 میچز ہاؤس فل رہے۔

اس سے تھوڑی ہائپ بڑھی،البتہ اس میں بورڈ سے زیادہ کریڈٹ قلندرز کا بنتا ہے، پی سی بی کو آئندہ کسی سیریز یا ایونٹ سے کافی پہلے اقدامات کرنا ہوں گے،کراچی میں لوگوں سے رائے لیں کہ وہ کیوں اسٹیڈیم نہیں آ رہے، صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر حکمت عملی بنائیں،شہر کے مختلف علاقوں سے مفت بسیں چلوائیں جس سے ٹکٹ ہولڈر اسٹیڈیم تک آ سکیں۔

ٹکٹ پر لکھ دیں کہ ٹرانسپورٹ فری ملے گی،کوئی ایک پوائنٹ بنوا دیں جہاں سے پک اینڈ ڈراپ دیا جائے،حکومت کے لیے بسیں چلانا کیا مشکل کام ہے، عام ٹکٹ کے ریٹ کم رکھیں، وی آئی پی اور باکسز کے نرخ دگنے کر کے اس رقم کو پورا کریں، امیروں کیلیے 20 ہزار کا ایک ٹکٹ خریدنا بھی کوئی مشکل کام نہیں،ٹکٹ نمبرز کی قرعہ اندازی کر کے موٹر سائیکل،ٹی وی، موبائل فونز جیسے مختلف انعامات دیں۔

اس کے لیے اسپانسرز تلاش کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،کچھ شائقین کو کھلاڑیوں سے ملاقات کا موقع بھی دیں،اسٹیڈیم کے اندر کم قیمت پر کھانے پینے کی اشیا فراہم کریں،فرنچائزز سے مدد لے کر شرٹس اور کیپس بھی تقسیم کریں، آپ یہ کر کے تو دیکھیں پھر بھی لوگ نہ آئیں تو کہیے گا،ورنہ اگر یہ رحجان برقرار رہا تو پھر اور مشکل ہوگی۔

صرف ٹی وی آڈینس کیلیے میچز کرانے ہیں تو خالی اسٹینڈز کو نہ دکھایا کریں یا پھر ڈمیز رکھ دیں تاکہ برا نہ لگے، نجم سیٹھی یقینا یہ سب معاملات دیکھ رہے ہوں گے مجھے امید ہے کہ وہ بہتری کیلیے اقدامات کریں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔