انتخابات سے گریز کیوں

ملک میں سیاسی انتشار کے خاتمے اور ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کےلیے عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے


ذکیہ نیئر زکی March 03, 2023
اسملبیاں ٹوٹنے کے نوے روز میں انتخابات کرانا لازم ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس وقت قریباً بائیس لاکھ سے زائد مقدمات معزز عدالتوں میں زیر التوا ہیں لیکن وہ مسئلہ جس کا حل آئین کی کتاب میں شفاف درج ہے کہ اگر اسمبلیاں ٹوٹ جائیں تو کتنے روز میں الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کا پابند ہے، جیسے مقدمے کو مقدم رکھتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ نے حکومت اور اداروں کو پھر سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ نوے روز میں انتخابات کرانا لازم ہے، صوبوں کو مزید نگراں حکومتوں کے حوالے کیے رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جوابی کارروائی میں وفاق اور الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کی تیاری کی جاتی ہے یا معزز جج صاحبان پر لفظوں کے بم بارود لے کر چڑھائی؟ سیاسی پنڈت تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت پوری کوشش کرے گی عدالت عالیہ کا یہ حکم صرف حکم ہی رہے جبکہ انتخابات کرانے والے ادارے کی من مرضی سے بھی سبھی واقف ہیں۔

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہمارے ہاں ہوتا یہی ہے، جب جب فیصلے آئین کی روشنی میں کیے گئے تب تب مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے عدالتوں کو بھرے جلسوں جلوسوں میں متنازع بنانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ عمران خان ہوں یا پھر شریف خاندان اور اب تو بلاول بھٹو جیسے طفلِ سیاست بھی انصاف کے پلڑوں کی مساوی حیثیت پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ججوں کا احتساب نیب کے ذریعے ہونا چاہیے جبکہ نیب کے اب تک کے مقدمات کی جانچ پڑتال کی جائے تو ادارے کی حیثیت سوائے حکومتی کنیز کے کچھ نہیں۔

قومی اسمبلی پہلے سے ہی اپوزیشن کے بغیر چل رہی ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر وزیروں مشیروں کی تعیناتی کا ہندسہ سیکڑے کے قریب جا پہنچا ہے۔ نیب ترامیم ہوں، بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق یا پھر منی بجٹ، اپوزیشن کے اعتراضات کے بغیر بل پر بل پاس کروائے جارہے ہیں، جن کی حیثیت کو مخالفین کی جانب سے پھر کسی عدالت میں جاکر چیلنج کردیا جائے گا۔ پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت کر کیا رہی ہے؟ کیا واقعی عوامی مسائل کے حل کےلیے اس وقت قومی اسمبلی موجود ہے یا پھر مقاصد کچھ اور ہیں؟ یہی سوال اگر عوام کی پنچایت میں رکھا جائے تو جواب سے بھلا کون واقف نہ ہوگا۔ ان دس بارہ مہینوں میں ملک کے حالات اس نہج کو جاپہنچے ہیں کہ وزیر دفاع خود پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا اظہار کر بیٹھے ہیں۔ آئی ایم ایف کا شرائط پر شرائط میں پھنسانے کا صاف مطلب ہے کہ ہم پر اعتماد نہیں رہا۔ دوست ممالک بھی ہماری اور آئی ایم ایف کی دوریاں دیکھتے دیکھتے ہم سے دور ہوگئے، کوئی دھیلا دینے کو تیار نہیں لیکن ضد ہے، انا ہے اور اقتدار کی ہوس۔ ملک کو بچانے کے بجائے بیس پچیس کلومیٹر کے رقبے پر شہنشاہیت زیادہ اہم ٹھہری۔

صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوجانے کے بعد وہاں اپنی مرضی کا نگراں سیٹ اپ لگا کر بھی آئینی احکامات نہ ماننا یقیناً ایسا اقدام تھا جس کا حل نکالنا ضروری تھا۔ گورنر حضرات نے آنکھیں میچ لیں، الیکشن کمشن نے آزاد اور خودمختار ہونے کے باوجود جی حضوری نہ چھوڑی، حیلے بہانے بڑھتے گئے، صدر پاکستان کے حکم نامے کو بھی ردی بنایا گیا۔ آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ ختم نہ ہوا تو عدالت عظمیٰ نے آئین کا تحفظ کرتے ہوئے اس معاملے کی ذمے داری لی لیکن وہاں بھی سرپھروں نے جج صاحبان پر اعتراضات اٹھا لیے۔ تصویروں کے ساتھ حاضر سروس ججوں کی تذلیل شروع ہوئی تو نو رکنی بینچ ٹوٹ کر پانچ رکنی رہ گیا اور اب جبکہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے وہی آیا جو آئین میں درج ہے، پھر سے لاڈلوں کی ''میں نہ مانوں'' کی تکرار شروع۔

حیرت تو اس بات کی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لینے کا فیصلہ بھی انہی کا اپنا تھا۔ پھر نئے سرے سے بینچ بنا اور فیصلہ اس پانچ رکنی بینچ کا ہے نہ کہ ٹوٹے ہوئے نو رکنی بینچ کا۔ جبکہ تاریخ میں کئی ایسے فیصلے موجود ہیں جب ماتحت عدالتوں میں درخواستیں دینے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں رجوع کیا گیا۔ اس کی ایک مثال تو خود نواز شریف کا 58 ٹو بی کے تحت برطرف کیا جانا، پھر ہائی کورٹ میں اپنی برطرفی کے اقدام کے خلاف درخواستیں زیر التوا ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں مقدمہ اٹھانا شامل ہے۔ جب صدر پاکستان اسحاق خان کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اقدام کے خلاف اعلیٰ عدلیہ نے فیصلہ دے کر نواز شریف کو بطور وزیراعظم بحال کیا تھا تب تو یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں بھی سنا جارہا ہے۔

اب شاید کوئی ایسی وجہ باقی نہیں رہ گئی کہ عوام کا حق عوام کے ہاتھ میں رکھنے سے گریز کیا جائے۔ اگر ملک میں سیاسی انتشار ختم کرنا ہے اور ڈوبتی معیشت کو سہارا بھی دینے کی نیت ہے تو فوری طور پر نہ صرف خیبرپختونخوا اور پنجاب بلکہ پورے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ عوام جسے چاہے منتخب کریں اور یہی مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی کیا جارہا ہے۔ اس وقت اقتدار کے مزے لوٹتی تیرہ جماعتیں اگر اپنی کارکردگی پر مطمئن ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ عوام ان پر اعتماد کا اظہار کریں گے تو خوف کس بات کا ہے؟ کیا انہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ تاخیر ان کی تباہی کی رہی سہی کسر بھی نکال دے گی۔ آگے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونا ہے، بجٹ لانا ہے، شرح سود میں مزید اضافہ ہونا ہے، ڈالر کی اڑان تین سو کی اسپیڈ سے بڑھنی ہے۔ تکنیکی بنیادوں پر اس وقت آپ کا ملک ڈیفالٹ کرچکا ہے، اگر اب بھی کرسی سے دستبردار نہیں ہوں گے تو پھر دوبارہ کیا بیانیہ لے کر عوام میں جائیں گے؟ دوسری طرف حکومتی ترجیحات سوائے پکڑ دھکڑ، انتقامی کاروائیوں اور اداروں کو کوسنے کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتیں۔ سیاستدانوں سے لے کر صحافیوں تک کوئی رانا صاحب کے انوکھے مقدمات سے محفوظ نہیں ہے، ان کی یہ کارروائیاں لوگوں کے دلوں میں سوائے نفرتوں کے اور کیا بوئیں گی؟

وقت جیسے جیسے گزرتا جائے گا تمام اتحادی ٹولے کےلیے مسائل بڑھتے جائیں گے۔ اس بات کا احساس اس لڑائی جھگڑے، کھینچا تانی اور کرسی کی جنگ سے بڑھ کر کرنا ہوگا۔ یہ کوئی آخری بار نہیں ہے، جیسے اس ملک میں حکومتیں بنتی اور گرتی ہیں اور جس طرح اس نظام میں ''بڑے بوڑھوں کے آشیرباد'' سے سب کی باریاں لگی رہتی ہیں تو آپ کو بھی کبھی نہ کبھی دوبارہ موقع مل ہی جائے گا، لیکن پارلیمانی طرز حکومت میں طریقہ کار ووٹ ہی ہے۔ ہر بار ایسا نہیں ہوسکتا کہ سندھ ہاؤس میں بولیاں لگیں، چپکے چپکے رات بارہ بجے آپ کو اسمبلیوں کی نشستوں پر بٹھا کر ملک کی باگ ڈور تھما کر جمہوریت کو بےبسی اور بے چارگی میں روند دیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں