فراز اور نشیب کے لوگ

سعد اللہ جان برق  اتوار 26 مارچ 2023
barq@email.com

[email protected]

ہماری لکشمی دیوی بولی تو بولی لیکن غلط بولی یعنی اس نے جو کہانی سنائی ہے وہ اچھی بھی نہیں اورسچی بھی نہیں۔

ایسا لگتاہے الوئوں اوران کے پٹھوں پر سواری گانٹھتے گانٹھتے اسے ساری دنیا الو کی پٹھی نظر آنے لگی ہے، کہتی ہے، میری شرائط کا مقصد یہ ہے کہ امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریب کو سہولتیں مہیا کی جائیں، یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ میں سورج کو مغرب سے نکالوں گا، بھلا ایسا کبھی ہوا ہے، ہوتاہے یا ہوسکتاہے کہ پہاڑکی چوٹی سے پتھر گرایا جائے اور وہ راستے میں نشیب میں پہنچنے سے پہلے رک جائے اور نشیب والوں کے سر پر سائبان بن جائے، پتھر تو جب چوٹی سے چلے گا تو لڑھکتے لڑھکتے اور چٹانوں سے ٹکراتے ٹکراتے اس کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جائے گی اور نشیب میں بیٹھے ہوئے فرد کے سر پر کئی گنا زیادہ رفتار ،کئی گنا زیادہ وزن اورکئی گنا زیادہ زور سے پڑے گا بلکہ اس کا کچومر بنا دیگا۔

اس تک آئی ہے تو ہرچیزٹھہرجاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مرجانا ہے

نشیب میں بیٹھا ہوا بلکہ بٹھایا ہوا ’’انوری‘‘ تو  یہی رونا روتا رہا ہے کہ جو بھی بلانازل ہوتی ہے، وہ اسی کا پتہ پوچھتی ہے۔کسی کا ایک پشتو شعر ہے کہ

کانڑے چہ رازی زما پر سرلگی
کلہ مے پہ زڑہ کلہ زیگرلگی

( پتھر جب بھی آتا ہے، میرے سر کو لگتا ہے، کبھی دل اورکبھی جگر کو لگتاہے ) کیا الو پر سوار لکشمی دیوی نے ایسا کوئی تنتر منتر بنا لیاہے؟ کیاکوئی آلہ ایسا ایجاد کیاہواہے کہ ٹیکس کسی امیرکے گھر ہی ٹھہرجائے اورکئی گنا زیادہ ہوکر زینہ بہ زینہ اس بد بخت نشئی تک نہ پہنچے جو پہلے ہی زندگی سے تنگ ہے۔

کہتے ہیں کہ ’’چکنے گھڑے‘‘ پر پانی کی بوند ہرگز نہیں ٹھہرتی اورہمارے چکنے گھڑے تو کچھ زیادہ ہی چکنے ہیں ، ان پر اگر ایک بوند پڑے تو اسے چاربوندیں کرکے نیچے بہا دیتے ہیں۔ صاحبان اور بیگمات کے لیے جو ’’لگژریاں‘‘ باہرسے آتی ہیں اور اس پر اس الو سوار کی شرط کے مطابق ٹیکس بڑھا دیاجاتا ہے تو کیا وہ ٹیکس یہ صاحبان یا بیگمات ادا کرتی ہیں؟

ہرگزنہیں بلکہ انھیں کک لگا کر نیچے لڑھکا دیاجاتا ہے۔ ٹھیک ہے وہ لگژریاں خریدتے وقت بیگمات اس کی ادائیگی اپنے لگژری پرس سے کرتی ہیں لیکن اس کی قیمت اوراس کے اندر کا مال غنیمت کہاں سے آتا ہے، وہی بدنصیب جو وہ پرس اور لگژریاں تو نہیں خریدتے لیکن آٹا ،گھی، بجلی اور سبزی ترکاری تو خریدتے ہیں ، دائیں سے نہیں بائیں سے ہی لیکن مار تو ان ہی کو پڑے گی۔ایک مشہور پشتو گیت ہے ۔

نرے باران دے پاس پہ لوڑوئے وروینہ
جورے ’’کرمے‘‘ تہ نصیب رواوڑے یمہ

( مزے مزے کی بارش ہے جو ’’اونچائیوں‘‘ پر برس رہی ہے لیکن مجھے تو نصیب گہرے ’’کرمہ‘‘ میں لایاہے)کرمہ سے مراد ’’کرم‘‘ ہے جو پارہ چنار کا مقامی نام ہے۔ اسے کرم ایجنسی بھی کہا جاتا ہے۔رحمان بابا کاشعرہے کہ نصیب کے جوروکرم سے میری ایک آنکھ باڑہ (دریا)اور دوسری ’’کرمہ‘‘ ہوگئی ہے ۔

پتھر ہو یا پانی کی بوند جب ’’اونچائیوں‘‘ سے نیچے آتے ہیں تو عذاب اور سیلاب بن چکے ہوتے ہیں اوراس کاعلاج کسی بھی بقراط یا لقمان سے نہیں ہوسکا ہے کہ ایک تو یہ بدبخت نشیب ہوتا ہے اوردوسرے اس کے سر پر بال نہیں ہوتے ۔

میں گرا ہوں تو اسی خاک میں ملنا مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اپنے نگر جاناہے

ہم پریشان نہیں بلکہ شاداں وفرحاں ہیں کہ اگر لکشمی بائی نے ایسا کردکھایا تو یہ دنیا کا، انسانی تاریخ کا اور پوری کائنات کاسب سے بڑا معجزہ بلکہ کرشمہ ہو گا، گویا سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوجائے گا ،اونٹ چھپر پر چڑھ جائے گا ،چیونٹی پر ہاتھی سوار ہوجائے گا، سمندر کا پانی ہمالیہ پرچڑھ جائے گا اورہمالیہ بہہ کر سمندر میں حل ہوجائے گا۔

ابھی تک تو ہم نے یہی دیکھا کہ ٹیکس لگژری گاڑیوں پر لگتے ہیں اور قیمت روٹی کی بڑھ جاتی ہے ،نرخ پٹرولیم کے چڑھ جاتے ہیں اور قیمت بلیڈوں کی بڑھ جاتی ہے ، سیدھی سی بات ہے نشیب ، نشیب ہوتا ہے اور فراز فراز۔جو چیز فراز سے نشیب کی طرف چلتی ہے، وہ نشیب میں پہنچ کررہے گی ،اس ساری کہانی کاخلاصہ یہ ہوا کہ لکشمی بائی جھوٹ بولتی ہے اورخوب دیدہ دلیری سے بولتی ہے کہ اس کے پیارے اس کے لاڈلے اور من چاہے لوگ تو یہی ’’سلیکٹڈ‘‘ لوگ ہوتے ہیں جو ان بد بخت کالا نعام کا خون چوستے ہیں جو نشیب میں پیدا ہوتے ہیں ،نشیب میں زندگی کا عذاب بھگتے ہیں اور پھر ایک دن اصلی نشیب یعنی زیر زمین ہوجاتے ہیں ،البتہ لکشمی کی آدھی بات سچ بھی ہے، وہ ان پستی کے رہنے والے پست اور نشیبی لوگوں کا کسی نہ کسی حد تک خیال بھی رکھتی ہے، ان کو بھیک اور خیراتوں پر زندہ بھی رکھتی ہے کیوںکہ یہ اگر مرجائیں گے تو لکشمی کے لاڈوں،فرازوں اور چوٹیوں کے لوگ لوٹیں ،کھائیں اور پئیں گے، کس کو۔

مطلب یہ اگر مالک گائے کو کھلاتا پلاتاہے تو اس لیے نہیں کہ اسے گائے سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس کے دودھ کے لیے اور اس کا گوشت کھانے کے لیے۔اس لیے لکشمی نے انتظام ایسا کر رکھاہے کہ گائے ہر حال میں زندہ رہے اور نسل بڑھائے تاکہ دودھ بھی ملتا رہے اور گوشت بھی ملتا رہے۔ چنانچہ خیرات خانوں لنگر خانوں کاسلسلہ بھی جاری رہتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔