ہماری بری عادات

شیریں حیدر  جمعرات 1 جون 2023
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں؟ ‘‘ خالی نشست دیکھ کر میں نے پوچھا۔ دور کے رشتوں یا کم پہچان والوں کی شادیوں میں یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ سوائے میزبان کے کوئی واقف نہیں ہوتا اور وہ ریسیپشن پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے میں خود ہی جگہ ڈھونڈنا پڑتی ہے جہاں اسی نوعیت کے لوگ بیٹھے ہوں۔ اس پوری میز پر مجھے دو خواتین بیٹھی نظر آئی تھیں۔

یہ سوچ کر کہ کہیں ان پر بیٹھے ہوئے لوگ ذرا سی دیر کو کہیں اٹھ کر نہ گئے ہوں یا وہ دونوں خواتین کسی کے لیے جگہ رکھ کر نہ بیٹھی ہوں۔

’’ جی ضرور۔‘‘ ان میں سے ایک نے شائستگی سے کہا اور میں بیٹھ گئی، تعارف ہوا۔ وہ دونوں بہنیں تھیں اور ان کی بھابی کے میکے کی شادی تھی جس میں وہ مہمانوں کی طرح شریک تھیں۔ میں نے نپکن اٹھایا تو اس کے نیچے ایک فون پڑا تھا۔

’’یہ آپ میں سے کسی کا فون ہے؟‘‘ میں نے اسے ہاتھ لگائے بغیر سوال کیا۔ دونوں نے نفی میں سر ہلایا۔ میں نے سوچ کر اسے اٹھایا کہ اس کے مالک تک پہنچنے کا طریقہ ڈھونڈوں۔ گویا جس کسی کا بھی وہ فون تھا وہ ان دونوں خواتین سے پہلے اس نشست پر تھا ورنہ تو انھیں علم ہوتا۔ ’’اس پر تو ریکارڈنگ آن ہے، جیسے کوئی وڈیو بناتے بناتے اسے یہاں رکھ کر بھول گیا ہو!‘‘ میں نے اس کی اسکرین پر دیکھا اور اسے سیدھا کر کے میز پر رکھ دیا۔

’’نشاء کا فون نہ ہو، وہ آئی تھی نا اورتھوڑی دیر بیٹھ کر چلی گئی تھی۔‘‘ ایک بہن نے کہا۔

’’ ہاں، اسی کا ہو سکتا ہے۔‘‘ دوسری نے تائید کی۔ میں نے سوالیہ نظر سے انھیں دیکھا۔

’’ہماری بھتیجی ہے۔‘‘ پہلے والی نے بتایا، ’’ آپ پلیز اس کی ریکارڈنگ بند کر دیں، کہیں اس کی بیٹری نہ ختم ہو جائے۔‘‘ میں نے اس کے کہنے پر جب ریکارڈنگ بند کی تو علم ہوا کہ ریکارڈنگ نصف گھنٹے سے بھی زائد وقت سے چل رہی تھی۔

وہ ابھی تک حیرت میں ہی تھیں کہ اس پر کوئی پیغام آیا اور اسے پڑھ کر وہ دونوں یوں سفید ہوگئیں جیسے کسی نے انھیں چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ انھوں نے فورا فون میز پر واپس رکھ دیا اور میری نظر بے ساختہ اس کی اسکرین پر پڑی۔ ’’ریکارڈ کر رہی ہو نا نشاء اپنی پھوپیوں کی باتیں؟‘‘ اسکرین پر پیغام چمک رہا تھا اور ان دونوں کے چہرے بجھ رہے تھے۔

میں نے فون کو اسی طرح الٹا کر نپکن کے نیچے رکھ دیا جس طرح وہ پہلے پڑا تھا اور اس جگہ سے اٹھ گئی، دو کرسیاں چھوڑ کر بیٹھ گئی۔ ’’میرا فون تو یہاں نہیں رہ گیا پھوپھو؟‘‘ وہ ایک بارہ تیرہ سال کی لڑکی تھی، جدید تراش خراش کے لباس میں ملبوس۔’’اب تو یہ کافی بڑی ہوگئی ہے۔ اسے تو بھابی نے ہمیشہ سے یہی سکھایا ہے کہ جہاں دو لوگ، بالخصوص ان کے سسرالی، بیٹھ کر بات کر رہے ہوں، وہاں یہ بچی گھس کر بیٹھ جاتی تھی اور بسا اوقات یوں اداکاری کرتی تھی کہ جیسے بیٹھے بیٹھے سو گئی ہو، منہ سے جو بات نکلتی تھی اس بچی کے دماغ میں ریکارڈ ہو جاتی تھی۔ اب اس کے دماغ کا کام، یہ فون کر رہا ہے اور ہے بھی پکا ثبوت۔‘‘ … ’’اس بچی نے کل کو بیاہ کر اگلے گھر جانا ہے، زندگی کو اس نے جانے کس کس نوعیت کے لوگوں سے برتنا ہے۔ یہ بچی تو ہر کسی سے یونہی بد ظن ہوگی۔

اسی طرح اسے لوگوں کی باتیں سننے کا چسکا ہوگا اور یہ ہمہ وقت ٹوہ میں رہے گی کہ دوسرے لوگ کیا باتیں کرتے ہیں۔ یہ بچی ہے جسے اس کی ماں نے جاسوسی کے کام پر مامور کیا، اس کے بعد یہ اپنے بچوں کو اس کام پر لگائے گی۔ اس کے ذہن میں شک کا جو بیچ اس کی ماں نے لگایا ہے، وہ کل کو ایک تناور درخت بنے گا اور اس کی اگلی نسل بھی اسی طرح کے کام کرے گی۔‘‘ میں نے انھیں سمجھایا۔ ’’جب اس کی ماں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اس کام پر لگا کر ٹھیک کر رہی ہے تو اسے کون سمجھا سکتا ہے۔‘‘

انھوں نے کندھے اچکا کر کہا۔ ہم اپنے بچوں یعنی بیٹوں اور بیٹیوں، دونوں کی تربیت میں ایسی نزاکتوں کا بہت خیال رکھیں۔ ان میں ایسی منفی عادات اور سوچ کو پروان نہ چڑھائیں کہ وہ معاشرے کے منفی سوچ والے افراد بن کر رہیں۔

آج نشاء ماں کے کہنے پر جو کام کر رہی ہے، وہ کام اسے کل کو اور بھی مزہ دے گا اور اسے خاندان کے باقی لوگوں کے خیالات کے بارے میں جاننے اور ان کی باتیں سننے کا چسکا پڑ جائے گا۔ آج وہ چھوٹی ہے اور اس کی سوچ معصوم، کل کو وہ ایک ایسی ماں بنے گی جسے ہر دوسرا شخص اپنے خلاف نظر آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔