ریاست قومی ہوتی ہے

جمیل مرغز  پير 18 ستمبر 2023
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

جب سے ہوش سنبھالا ہے اور تھوڑا بہت سیاسی شعور حاصل کیا ہے‘ ایم اے پولیٹیکل سائنس کیا، اس میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ جو خطہ زمین ان چار شرائط پر پورا اترے، اس کو ریاست کہتے ہیں۔

اقتدار اعلیٰ (Sovereignty)، مخصوص علاقہ‘جس کی سرحدات واضح ہوں،آبادی اورحکومت۔ ویسے بھی خیبر پختونخوا میں بھی ایک علاقہ‘آبادی اور حکومت ہے لیکن اس کو ریاست اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ یہ اقتدار اعلیٰ کا حامل نہیں بلکہ وفاق پاکستان کی ایک اکائی ہے ۔

یہ بھی پڑھا ہے کہ ریاست کا اپناکوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ ریاست کی حدود میں رہنے والے تمام لوگوں کی ہوتی ہے اور اپنے ہر شہری کے تحفظ کی ذمے دار ہوتی ہے۔

پاکستان کے نظام حکومت اور ریاست کے بارے میں قائد اعظم نے اپنی 17اگست 1947کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہوگا جہاں صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہر شہری کو بلاامتیاز رنگ ونسل،زبان اور عقیدے کے یکساں حقوق حاصل ہوں گے لیکن ریاست اور نظام پر رجعت پسندوں کے غلبے نے مملکت پاکستان کی شکل ہی بگاڑ دی ہے ۔

چند سال قبل کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ مسعود کی ہلاکت اور افواج پاکستان کے شہدا ٔکے بارے میں اس وقت کے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بیان دے کر فکری انتشار اور اس کی سنگینی کو مزید بڑھا دیا۔اسلام کے نام پر بننے والی مملکت خداداد کو اسلام کے نام پر سیاست کرنے والوں سے ہی خطرات پیدا ہونا، فکر و نظریاتی انتشار کی انتہا ہے۔

ہمارے دائیں بازو کے اہل علم ، سیاستدان اور سیاسی علمائے کرام اپنے سیاسی نظریات اور فکری انتشار اور ابہام میں اتنے دھنس چکے ہیں کہ انھیں قومی و جدید ریاست ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ لگتا ہے دائیں بازو کے نظریہ ساز ریاستی معاملات کو سمجھنے، پرکھنے اور ہنڈل کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ ایشیا،افریقہ اور یورپ کسی مسلم اکثریت ملک نے اپنی قومی شناخت کو ترک نہیں کیا اور نہ ہی وہ کوئی گروہ ایسا کرنے کی جرات کر  سکتا ہے۔

سعودی عربیہ ، مصر ‘شام ‘عراق‘کویت ‘دبئی‘  انڈونیشیا ‘ملائیشیا ‘سوڈان اور لیبیا،یہ تمام ممالک اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے قومی ریاستیں ہیں۔ انتہا پسندوں کا ایک گروہ تو اب تقریباً تمام مسلم اکثریتی ممالک کو دارلحرب قرار دے کر اپنے ہی مسلم بھائیوں کو تہ تیغ کرکے نہ جانے کون سی عالمی امہ کے تصور کی آبیاری پے کمر بستہ ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان میں جمہوری حکومتیں بھی عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں‘اسی وجہ سے ہمارے بعض حلقے شدت پسندوں کے سامنے نظریاتی ہتھیار پھینک بیٹھے ہیں‘ انتہا پسند مذہبی گروپس پاکستان اور افغانستان کی ریاستوں کو تاراج کرنا چاہتے ہیں‘کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے کمال ہوشیاری سے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔

افغانستان میں لبرل اور روشن خیال تو کیا ، دائیں بازو کی اعتدال قوتیں بھی سرنڈر ہوچکی ہیں۔ کمیونزم اور سرمایہ دار دنیا کے درمیان سرد جنگ نے مذہبی انتہا پسند نظریات کو پروان چڑھایا، امریکا کی زیر قیادت سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک کے اتحاد نے مسلم ممالک میں مذہبی حلقوں کو کھل کر کام کرنے کی رعایت فراہم کرائی ۔

ان رجعت پسندوں نے سوشلزم کے ’’کفر اور بے دین‘‘ نظام قرار دے کر امریکا اور نیٹو کو سوویت یونین کے خلاف اسے نظریاتی تحفظ فراہم کیا‘ جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان اور افغانستان کے دائیں بازو کے موقع پرست غیرسیاسی قوتوں اور ان کے ہمنوا مذہبی حلقوں کا مشترک محاذ بنا‘ اس مشترکہ اتحاد نے افغانستان کو میدان جنگ بنایا اور خوب مال سمیٹا۔ آج اس اتحاد کے اندر دراڑ پڑ چکی ہے ۔

لیکن اب بھی اس مشترکہ اتحاد میں شامل قوتوں سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ جناب عالی! جہاد کے نام پر اربوں کھربوں ڈالر کے مال غنیمت سے فیض یاب ہونے کے باوجود آپ کیوں کر القاعدہ اور طالبان کے پرائیویٹ لشکروں کی حمایت میں چل پڑے ہیں ۔

جو بنیادی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے ‘وہ یہ ہے کہ مملکت پاکستان جس کا ایک جغرافیائی حدود اربعہ ہے ‘جس کا ایک متفقہ آئین ہے ‘جس کے قومی ادارے ہیں‘مقننہ ‘عدلیہ و انتظامیہ ہیں اور اندرونی و بیرونی سلامتی کے لیے افواج پاکستان ہیں‘سول ایڈمنسٹریشن ہے، جس کی حدود میں 24کروڑ شہری بستے ہیں ‘جو نہ تو عرب ہیں نہ فارس کے رہنے والے ‘ جن کی زبان بھی نہ عربی ہے نہ فارسی ہے اور نہ ترکی ہے۔

پاکستان کی اپنی زبان اور کلچر ہے ، شناخت ہے۔ پاکستان کے جغرافیائی حدود میں بسنے والے قبائل، اقوام ، ذاتیں اور برادریاں ہزاروں برس سے یہاں آباد چلی آرہی ہیں، وہ عظیم تاریخی و ثقافتی ورثوں کے حامل ہیں ‘ پاکستان کا خطہ ، جنوبی ایشیائ، وسط ایشیائی مسلم ممالک کی برادریوں میں منفرد اور الگ شناخت کا حامل ہے۔

پاکستان کی اس قومی شناخت اور حیثیت کو سامنے رکھا جائے تو اس کے کسی شہری کو حب الوطنی کے لیے کسی اکثریتی گروہ یا کسی مذہبی طبقے کے فتوے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور پاکستان کی فوج کے ساتھ جنگ کرنے والے، پاکستان کے شہریوں اور فوجی و سول افسروں اور جوانوں کو شہید کرنے والے درست ہیں؟ اگر پاکستان کی کوئی سیاسی قیادت، دانشور یا مذہبی شخصیت دہشت گردوں کی نظریات بنیاد پر حامی ہے تو کیا وہ پاکستان کے باغی نہیں ہیں؟

پاکستان کے حکمرانوں کی ا مریکی سامراج کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کی مخالفت میں ریاستی ڈھانچے کی تعمیر میں بنیادی غلطی ایک قومی ریاست کی شکیل کا کام مذہبی نظریات کی بنیادوں پر کرنے کی کو شش تھی ۔ ریاست کی تعمیر و حفاظت کا مطلب نظریہ کی حفاظت بن گیا، اب یہ غبارہ پھٹ گیا ہے۔

اب پاکستان فرقوں پرستوں اور انتہاپسندوں کی گرفت میں ہے، ایسے میں جدید قومی اور وفاقی ریاست کی تعمیر کس بنیاد پر اورکیسے کی جا سکتی ہے؟ آج مذہبی انتہا پسندی ‘ عقل دشمنی‘ترقی مخالف اور متشدد فرقہ واریت کو خیر باد کہنے کا وقت آگیا ہے اگر ایسا نہ ہوا اور قومی ریاست کے نظریے اور پاکستان کو سینے سے نہ لگایا گیا تو ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

پاکستان قومی ریاست تمام شہریوں کی مساویانہ شرکت اور ریاست اور اس کی وفاقی اکائیوں میں بسنے والے تاریخی ورثوں کے مالک لوگوں کی باہم پاسداری کے کثرتی اتحاد پر بر قرار رہ سکتی ہے۔

ریاست اور اس کے عوام کے مابین عمرانی معاہدہ جو 1973کے آئین کی صورت میں موجود ہے اور یہ دائیں و بائیں ‘مذہبی و سیکولر اور تمام لسانی و قومیتی گروہوں کے مابین ایک ایسا سمجھوتہ ہے جسے برقرار رکھا جائے بلکہ اس کو مزید عوام دوست بنانے کے لیے ایک نیا معاہدہ عمرانی کیا جائے اور طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کو ہو نہ کہ گلی محلوں میں باہم بر سر پیکار فرقہ وارانہ مسلح لشکروں کی تباہ کاری۔ ایسی قومی جمہوری ریاست اور اس کے مکینوں کی حفاظت کے لیے جام شہادت نوش کرنا کسی بھی ثواب عظیم سے کیا کم ہے اور اس کار خیر کے لیے کسی فتوے کی بیساکھی کی چنداں ضرورت نہیں۔

اب تو صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی انتہاپسند گروہ کا کوئی عہدے دار مارا جاتا ہے تو اس کے حامیان و پشت پناہ سڑکوں پر نکل کر قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، کوئی فرقہ پرستوں کی باہمی چپقلش میں مارا جاتا تو اس کا ذمے دار بھی ریاست کو ٹھہرایا جاتا ہے، کوئی دہشت گرد مارا جاتا ہے تو اسے صوبائیت، لسانیت کا رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے یا یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ مارا جانے والا دہشت گرد نہیں تھا بلکہ عام شہری تھا حتیٰ کہ کوئی خودکش افغانستان سے ہی کیوں نہ آیا ہو، اسے بھی بے گناہ پاکستانی قرار دینے سے بھی ہچکچایا نہیں جاتا ہے۔ ریاست حیران و پریشان کھڑی منہ دیکھ رہی ہے۔خدا را پاکستان کو ایک ماڈرن ریاست بنائیں نہ کہ تھیوکریسی وغیرہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔