ڈور سے ہلاک کرنے پر دفعہ 144 بس؟

سید مشرف شاہ  پير 26 مئ 2014
قتل کا ملزم آج گرفتار، کل ضمانت پر باہر۔ فوٹو: فائل

قتل کا ملزم آج گرفتار، کل ضمانت پر باہر۔ فوٹو: فائل

لاہور: چینی کی ذخیرہ اندوزی، آٹے کی اسمگلنگ، روٹی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتارچڑھاؤ پر قابو پانا، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں پر نظر رکھنا، جمعہ بازار، اتواربازار اور رمضان بازاروں کی سیکیوریٹی، پتنگ بازی روکنا، وی وی آئی پیز کی سیکیوریٹی، ڈکیتی چوری، ڈاکا،لا اینڈ آرڈر  کی صورت حال پر قابو رکھنا، سیکیوریٹی ڈیوٹی دینا، مقدمات کی تفتیش، اشتہاری ملزموںکی گرفتاری اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔، بے تحاشا کام، جو پنجاب  پولیس  کے ذمے ہیں۔

اس سب کچھ کے باوجود محکمۂ پولیس کو سب سے بدنام ، کام چور، نااہل اور ’’ویہلا‘‘ کا طعنہ بھی سہنا پڑتا ہے۔ اور تو اور اب پولیس کو پولیو کے قطرے پلانے  کا ریضہ بھی سونپ دیا گیا ہے، امکان یہ ہے کہ آج نہیں تو کل لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ گھر گھر جاکر آبادی کنڑول کرنے کے منصوبہ کی نگرانی بھی نہ اسی ’’ویہلے‘‘ محکمے کے کاندھے پر ڈالی جانے والی ہے۔ عجب ہے کہ اس سب کچھ کے  باوجود حکومت سزائیں بھی اسی محکمے کو سب سے زیادہ ملتی ہیں۔

گزشتہ دنوں لاہور میں بادامی باغ کے علاقے میں  شیخوپورہ کے علاقے کوٹ عبدالمالک کانوجوان حافظ راشد پتنگ کی ڈور پھرنے سے جاں بہ حق ہوگیا۔ راشد کی ڈیڑھ سال قبل شادی ہوئی تھی، جس کے بعد وہ اپنے بھائی اور اہلیہ کے ہم راہ بادامی باغ اٹھ آیا تھا۔ چند ماہ قبل اس کے گھر بیٹی  ہوئی تھی۔ وقوعہ کے وقت راشد سبزی منڈی کے قریب سے گزر رہا تھا کہ قاتل ڈور نے اسے گھایل کردیا، اسپتال پہنچایا تو گیا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واقعہ کاہ مقتول کے بھائی عبدالواثق کے بیان پر پولیس نے  مقدمہ درج کرلیا۔ مقتول چار بہن بھائیوں میں دوسرا تھا۔ واقعہ بے شک ازحد لائقِ مذمت ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں پتنگ بازی پر دفعہ 144نافذ ہے۔ اس المیے پر پولیس افسروں کی معطلی اور برطرفی کی ایسی رو چلی کہ دوایس ایچ او اورایک ڈی ایس پی برطرف کردیے گئے، ایک ایس پی کو اوایس ڈی بنادیا گیا۔ اس سے قبل بھی پتنگ بازی سے ہلاکتوں کے واقعات میں افسروں کو برطرف اور معطل کیا جاتا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ معطلیوں اور برطرفیوں سے مقتول کو انصاف  مل جائے گا؟ پتنگ بازی ختم ہوجائے گی؟۔ مثل مشہور ہے کہ دو کشتیوں کا سوار منزل پر نہیں پہنچتا جب کہ یہاں کشتیاںشمار ہی میں نہیں آتیں، ہر کشتی میں پولیس سوار کرادی جاتی ہے۔

قانون کے مطابق پولیس دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کرکے ملزم گرفتار کرسکتی ہے تاہم اگلے ہی روز ان کی ضمانت ہوجاتی ہے، اس سے ایک طرف پولیس کا وقت ضایع کیا گیا اور دوسری طرف ملزم کے شب و روز پر اثر تو کیا ہوتا الٹا اسے شہ ملی کہ اس قانون کو توڑنا کتنا آسان ہے، حال آںکہ ملزم کے اس عمل سے کسی کی جان گئی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ سیدھے سبھاؤ قتل ہے، قتل دفعہ 144 کی سزا؟؟؟، نضھکہ نہ اڑایا جائے۔ اب اس کی یہ صورت ملاحظہ ہو کہ پتنگ بازی روکنے کو پولیس گھر میں داخل ہوگی تو چادر اور چاردیواری کا شور نہ مچے گا؟۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے کردار کو ڈیفائن کیا جائے، ہرکام میں پولیس کو گھسیٹا جائے گا تو کوئی بھی کام سرے تک تک نہیں پہنچے گا۔ وزیرِ اعلیٰ ان خطوط پر ضرور سوچیں، پولیس کا جو کام ہے اس سے وہی لیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی اور صلاحیتیں سامنے آئیں۔

پتنگ بازی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پتنگ بازی کا سامان ہی مارکیٹ میں موجود نہ ہو، بانس نہ رہے گا تو بانسری بھی نہیں بجے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور کے قریبی اضلاع میں پتنگیں تیار کی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق احمد  نے جب پتنگ بازی کے خلاف کریک ڈاون شروع کروایا تو پولیس نے متعدد گوداموں سے پتنگ بازی کا لاکھوں روپے کا سامان برآمد کر کے مقدمات درج کیے تھے۔

گرفتار ہونے والوں نے ا نکشاف کیا کہ وہ ضلع شیخوپورہ، قصور، نارووال، ننکانہ، اوکاڑہ اور پاکپتن کے علاقوں سے پتنگ بازی کا سامان تیار کرواتے ہیں۔ اس سلسلے میں سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق احمد نے ایکسپریس سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو بھی چاہیے کہ پتنگ بازی جیسے قاتل کھیل کو بند کردیں۔ لاہور پولیس نے  تھانے کی سطح پر پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے آگاہی مہم شروع کی، بینر لگوائے، مساجد میں اعلانات کروائے، متعدد علاقوں سے پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والوں کو گرفتارکیا اور لاکھوں روپے کا سامان برآمد کیا۔

لاہور پولیس دیگر کئی ڈیوٹیوں کے علاوہ پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے بھی متحرک ہے، تمام ڈویژنل ایس پیز، سرکل افسر اور ایس ایچ اوز کو سختی سے حکم جاری کیا گیا ہے کہ وہ علاقے میں دوران گشت یہ بھی خیال رکھیں کہ کہیں پتنگ بازی تو نہیں ہو رہی۔ لاہور پولیس نے  ایک بار پھر پتنگ بازوں کے خلاف سخت کریک ڈاون  شروع کردیا ہے۔  انہوں نے لاہور شہر کے باسیوں سے اپیل کی ہے کہ اپنے بچوں کو پتنگ بازی سے باز رکھیں  تاکہ ان کے اس شوق سے کسی کا گھر نہ اجڑے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔