اردویونیورسٹی؛اساتذہ کی تقرریوں پرغلط اعدادوشمار سے ایچ ای سی کی رپورٹ متنازعہ ہوگئی

صفدر رضوی  جمعـء 22 دسمبر 2023
(فوٹو: فائل)

(فوٹو: فائل)

  کراچی: اردویونیورسٹی میں اساتذہ کی تقرریوں اوران کے سلیکشن بورڈزکوجائزیاغیرقانونی قراردینے کی رسہ کشی نے اس معاملے پر جاری اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی رپورٹ کومتنازعہ بنادیا ہے۔ 

رپورٹ میں مبینہ طورپرحقائق کے برعکس شامل کیے گئے  بعض اعداد وشمار کی یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی نشاندہی نے اس رپورٹ کی حیثیت پر سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں۔

ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں ان بھرتیوں کوخلاف ضابطہ قراردیا تھا تاہم ایچ ای سی کی رپورٹ کے جواب میں اردویونیورسٹی کی جوابی رپورٹ یونیورسٹی کی سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں یونیورسٹی کی انرولمنٹ،اساتذہ کی کل تعداد اورسلیکشن بورڈ کے تحت مقررکردہ اساتذہ کی تعداد کے اعدادو شمار غلط پیش کیے ہیں۔

سلیکشن بورڈ چار ماہ تک ایچ ای سی کے نمائندے کی موجودگی میں جاری رہے،  انھوں نے تمام پروسس کوتسلیم بھی کیا تاہم جیسے ہی چیئرمین ایچ ای سی تبدیل ہوئے تونئے سربراہ کی موجودگی میں سلیکشن بورڈ کوغیرقانونی قراردیے جانے کی کوشش کی گئی۔

یادرہے کہ یہ مذکورہ جوابی رپورٹ اردویونیورسٹی کے چانسلراورصدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کی زیرصدارت منعقدہ سینیٹ کے حالیہ اجلاس میں سامنے آئی ہے،  اجلاس میں ایچ ای سی کی رپورٹ کے جواب میں یونیورسٹی کی پیش کی گئی رپورٹ میں بعض اہم انکشافات سامنے آنے کے بعد اب ان دونوں رپورٹس کی اسکروٹنی اورسلیکشن بورڈسے متعلق حقائق جاننے کے لیے مزیدایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے جواپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی۔

اس سلسلے میں ”ایکسپریس“کومعلوم ہواہے کہ اردویونیورسٹی کے سبکدوش کیے گئے وائس چانسلرکی سابق انتظامیہ نے اساتذہ کے سلیکشن بورڈکوکالعدم کرنے سے متعلق اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی رپورٹ کاپوسٹ مارٹم سینیٹ کے حالیہ منعقدہ اجلاس میں پیش کیا۔

ایچ ای سی کی جانب سے جاری رپورٹ کے جواب میں یونیورسٹی کی جاری کی گئی parawise reply میں انکشاف ہواہے کہ ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں 2021کے جس سلیکشن بورڈ کے نتیجے میں تعینات کیے گئے اساتذہ کے اعداد وشمار پیش کیے ہیں وہ غلط ہیں۔

ایچ ای سی کی رپورٹ کہتی ہے کہ کل 235اساتذہ کی تقرری کی گئی جس میں 6اساتذہ undefined post پر تعینات ہوئے جبکہ 89 لیکچرر،109اسسٹنٹ پروفیسر، 21ایسوسی ایٹ اور10پروفیسرشامل تھے۔

اس کے برعکس یونیورسٹی اپنی رپورٹ میں کہتی ہے کہ undefinedکے نام سے کوئی کیڈر موجود ہی نہیں جبکہ کل 152اساتذہ کی تعیناتیاں کی گئیں جن میں سے 61لیکچررز،68اسسٹنٹ پروفیسرز،19ایسوسی ایٹ اور4پروفیسرزشامل ہیں۔

اسی طرح اردویونیورسٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ ایچ ای سی نے یونیورسٹی کی انرولمنٹ اوراساتذہ کی تعداد کے حوالے سے نہ صرف غلط اعداد وشمار پیش کیے بلکہ کراچی اوراسلام آباد کیمپس کے طلبہ اوراساتذہ کی تعداد کاٹوٹل بھی غلط پیش کیا۔

ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں کراچی کیمپس میں طلبہ کی تعداد 10106اوراسلام آباد میں 4386پیش کی اوراس کاغلط ٹوٹل 13606پیش کردیا، اسی طرح کراچی کیمپس میں اساتذہ کی تعداد 275اوراسلام آباد میں 131بتائی گئی اوراس کاغلط ٹوٹل 386بتایا گیا۔

یونیورسٹی کی جوابی رپورٹ بتاتی ہے کہ کراچی میں کل طلبہ14442 اوراسلام آباد میں 4103 ہیں اوراردویونیورسٹی کے طلبہ کی تعداد 18545 ہے، اس طرح کراچی میں 263اساتذہ جبکہ اسلام آباد میں 98ہیں جبکہ کل اساتذہ 361ہیں۔

اس سلسلے میں جب ”ایکسپریس“نے اردویونیورسٹی کے ایک سینئراستاد سے دریافت کیا توانھوں نے ان اعداد وشمارکے ہیرپھیرسے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ ایچ ای سی نے سلیکشن بورڈ سے آنے والے ان اساتذہ کوبھی گنا ہے جوپی ایچ ڈی کرنے کے سبب پہلے ہی سے ایڈہاک اسسٹنٹ پروفیسربن کراسی عہدے کی تنخواہیں لے رہے ہیں۔

سلیکشن بورڈمیں appearہونے سے یونیورسٹی کے پے رول پر ان اساتذہ کی تنخواہوں کے سبب کوئی فرق نہیں ہے،  ایسے اساتذہ کی تعداد 40کے لگ بھگ تھی۔

اسی سینیئراستاد کامزید کہنا تھا کہ ایچ ای سی کی تحقیقاتی کمیٹی نے ان لوگوں کوبھی شمارکیا ہے جنھیں آفرآرڈرتوجاری کیے گئے تاہم انھوں نے یونیورسٹی جوائن نہیں کی،  ایسے افرادکی تعداد بھی 20کے آس پاس ہے،  اسی بنیادپر ایچ ای سی کے اعدادو شمارغلط ہیں۔

انرولمنٹ اوراساتذہ کی کل تعدادکے حوالے سے ایچ ای سی کے اعداد وشمار کے حوالے سے مذکورہ سینئرپروفیسرکاکہناتھاکہ شاید ایچ ای سی کی کمیٹی نے جلد بازی میں صرف کراچی کیمپس کی انرولمنٹ رپورٹ میں شامل کی اوریہ بھول گئے کہ اسلام آباد کیمپس بھی موجود ہے۔

واضح رہے کہ ایچ ای سی کی تحقیقاتی کمیٹی میں پرووائس چانسلراین ای ڈی یونیورسٹی ڈاکٹرمحمد طفیل،ایچ ای سی کے ڈائریکٹرکوآرڈینیٹرشاہ زیب عباسی،ایچ ای سی کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر ارشدبشیر،ریجنل ڈائریکٹرکراچی جاوید میمن اوروفاقی وزارت تعلیم کے جوائنٹ سیکریٹری راجا اختراقبال شامل تھے۔

”ایکسپریس“نے جب غلط اعدادو شمار پیش کرنے کے یونیورسٹی کی سابق انتظامیہ کے دعوے پر چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹرمختاراحمد سے دریافت کیا توان کا کہنا تھاکہ جوپکڑمیں آتاہے وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے، ان کا کہنا تھاکہ میں نے اردویونیورسٹی کی جوابی رپورٹ نہیں دیکھی ہے تاہم اتنا ضرورہے کہ اب ہمیں اس یونیورسٹی کے حوالے سے سخت فیصلے کرنے  ہوں گے۔

ادھر ایچ ای سی کی رپورٹ کے جواب میں تحریری رپورٹ کے خالق اردویونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرپروفسیرڈاکٹرضیاء الدین سے جب ”ایکسپریس“نے رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ ایچ ای سی کی ٹیم آئی تھی ہم نے انھیں مکمل ڈیٹا شیئرکیا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارے دیے گئے ڈیٹاکورپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا اورحقائق کے برعکس رپورٹ تیارکی گئی۔

یادرہے کہ ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں اس پورے سلیکشن پروسس کوکالعدم قراردینے کی سفارش کی تھی جس کے جواب میں یونیورسٹی نے جوابی رپورٹ میں شامل اپنی تجاویز میں موقف اختیارکیا ہے کہ جب ایچ ای سی کے سلیکشن بورڈمیں شریک نمائند ے ڈاکٹراے کیومغل کی موجودگی میں کمیٹی امیدواروں کی تقرری کی سفارش کرچکی ہے تویونیورسٹی لاء میں اب اس کی گنجائش نہیں کہ ایچ ای سی کی کوئی کمیٹی اس سلیکشن پروسس کاجائزہ لے۔

یونیورسٹی کے اعلیٰ اختیاراتی ادارے ”سینیٹ“کی جانب سے اس سلیکشن پروسس کی منظوری 18جون 2022کودی جاچکی ہے اگراس میں کوئی بے قاعدگی ہے تواسے دوبارہ سلیکشن بورڈکوریفرکیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی کہا گیاہے کہ جب نمائندہ ایچ ای سی تمام سلیکشن کے مرحلے میں شامل رہے اوران کی جانب سے امیدواروں کے تقررمیں کسی قسم کااعتراض نہیں اٹھایا گیا اورچار ماہ مئی 2021سے اگست 2021تک چلنے والے سلیکشن پروسس کے دوران ایچ ای سی کی جانب سے بھی کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا اورچیئرمین ایچ ای سی کی تبدیلی اورپروسس کے ایک سال کے بعد اس پر اعتراضات اٹھانا غیرقانونی ہے۔

ایچ ای سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی شعبوں کے سلیکشن بورڈ ایسے تھے جس میں دوکے بجائے ایک سبجیکٹ اسپیشلسٹ شریک ہوا، اس اعتراض کے جواب میں یونیورسٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی نے یہاں بھی حکام کوگمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ سلیکشن کمیٹی میں 4اراکین پر کورم پورا ہوتاہے جس میں ایک سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھی شریک ہوسکتاہے اوردوکی شرکت mandatoryنہیں ہے۔

واضح رہے کہ اردویونیورسٹی کے منعقدہ ان سلیکشن بورڈز میں ڈاکٹراے کیومغل ایچ ای سی کے نمائندے کے حیثیت سے شریک ہوتے رہے، ایچ ای سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ڈاکٹراے کیومغل کے مطابق بورڈکی تمام کارروائیاں یونیورسٹی کی statutory requirmentsکے مطابق تھیں اوراس کے تمام فیصلے بورڈ کودی گئی دستاویزات کی روشنی میں کیے گئے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی اس بات کی تائید میں کہا ہے کہ ڈاکٹراے کیو مغل نہ صرف تمام سلیکشن پروسیس کاحصہ رہے بلکہ امیدواروں کومارکس دیے اورسلیکشن کمیٹی کی تمام سفارشات پران کے دستخط بھی موجودہیں۔

قابل ذکر امریہ ہے کہ ایچ ای سی کی انکوائری ٹیم نے اپنے رپورٹ میں یونیورسٹی کی سلیکشن کمیٹی پر الزام عائد کیاکہ کچھ امیدواروں کوانٹرویومیں بولنے کاموقع ہی نہیں دیا گیا، ان سے بمشکل ایک سوال پوچھا گیااورانھیں دومنٹ کے اندرہی واپس لوٹا دیا گیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے اس الزام کے دفاع میں ایچ ای سی کی رپورٹ کا ہی سہارالیتے ہوئے کہا ہے کہ ایچ ای سی کے اپنے نمائندے نے مذکورہ کمیٹی کے سامنے یہ واضح کیا ہے کہ ڈاکٹرمغل کے مطابق انٹرویومیں امیدواروں کو دیا جانے والاوقت امیدوارکی اپنی صلاحیتوں پر انحصارکرتا ہے، اگرامیدوارکوکسی بنیادی سوال کاجواب ہی معلوم ہوتوبورڈ اس سے مزید سوالات نہیں کرتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔