چی گویرا

انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حکمرانوں کو جنوبی امریکی ممالک کا استحصال کرتے ہوئے دیکھا۔


Zuber Rehman June 14, 2014
[email protected]

دنیا کے معروف ترین انقلابیوں میں سے ایک چی گویرا ہیں، جن کی پیدائش 14 جون 1928 کو ہوئی اور 9 اکتوبر 1968 کو ان کا سفر حیات تمام ہوا ۔ ارجنٹینا کے انقلابی مارکسی، ڈاکٹر، مصنف، گوریلا رہنما، ڈپلومیٹ اور فوجی نظریہ داں تھے۔ وہ کیوبا کے انقلاب کے بانیوں میں سے تھے۔ جب وہ طالب علم تھے، جنوبی امریکا کی ریاستوں کا موٹرسائیکل پر دورہ کیا اور وہاں کی غربت، بھوک اور بیماری کو خود دیکھا۔ انھوں نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے حکمرانوں کو جنوبی امریکی ممالک کا استحصال کرتے ہوئے دیکھا۔

گوئٹے مالا کے صدر جیکبو آربینز نے جب امریکی یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کو قومی ملکیت میں لیا اور دیگر سماجی اصلاحات کیں تو امریکی سی آئی اے نے ان کا تختہ الٹ دیا اور جیکبو کو قتل کروا دیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام نے ان کے ذہن میں نفرت پیدا کردی۔ انھوں نے میکسیکو شہر میں راول کاسترو اور فیڈل کاسترو سے ملاقات کی اور '26 جولائی تحریک' نامی تنظیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد کیوبا کی امریکی نواز فل جینی شیئو بیتیستا کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ٹھانی۔ چی گویرا نے انقلاب کیوبا کے بعد انقلابی حکومت میں اہم کردار ادا کیا۔ زرعی اصلاحات کو منظم کیا اور صنعت کے وزیر بنے۔

ملک بھر میں تعلیم کے شعبے میں قابل ذکر مہم میں حصہ لیا۔ کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر رہے اور کیوبا کی فوج کے انسٹرکشنل ڈائریکٹر رہے، کیوبا کی سوشلسٹ حکومت کی بیرون ملک نمایندگی بھی کی۔'' بے آف پگز'' لڑائی میں امریکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے والی ملیشیا کی مرکزی تربیت کرنے کا کردار ادا کیا اور 1962 میں کیوبن میزائل بحران کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مزید برآں وہ ایک سیاسی مصنف اور ڈائری لکھنے کے ماہر تھے۔ وہ گوریلا جنگ کے ماہر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سامراج، سرمایہ داری، اجارہ داری اور جدید نو آبادیاتی استحصال کے خلاف تھے اور ساری زندگی لڑتے رہے ۔ وہ عالمی انقلاب کے زبردست حامی تھے۔

انھوں نے 1965 میں عالمی انقلاب کے لیے کیوبا کو چھوڑ دیا اورکیوبا سے باہر نکل پڑے۔ پھر وہ کانگو، کنشاسہ اور بعد ازاں بولیویا میں گوریلا جنگ کرتے رہے۔ وہیں امریکی سی آئی اے نے ایک مذموم سازش کے تحت انھیں قتل کیا۔ جب مر رہے تھے تو زور سے چیختے ہوئے کہا تھا کہ بزدلو دیکھو میں کس بہادری سے مر رہا ہوں۔ ان کو مارنے کے بعد ان کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے اور زمین میں دفنا دیا گیا تھا۔ ارجنٹینا، کیوبا اور بولیویا کی حکومتوں نے ان کا جسد خاکی (ڈھانچہ) 30 برس تک تلاش کرنے کے بعد کیوبا کے دارالخلافہ ہوانا کے چوراہے پر ان کے دریافت شدہ جسمانی ڈھانچے کو دفنایا گیا۔ اس پر چی گویرا کا دیو قامت مجسمہ بنایا گیا ہے، جس کے ہاتھ میں بندوق تھمائی ہوئی ہے۔

چی گویرا کی طلسماتی زندگی پر کہانیاں، ڈائریاں، ڈرامے، فلمیں، تصویریں، نظمیں اور بے شمار نغمے گائے، دیکھے اور لکھے جا چکے ہیں۔ آج میکسیکو سے نیوزی لینڈ اور یورپ سے برصغیر تک ہر شہر، گلی کوچے، تعلیمی اداروں اور مل فیکٹریوں کے مزدوروں کی شرٹوں اور بنیانوں پر ان کی تصویر نظر آئے گی۔ وہ جرات، بہادری اور بے خوفی کی علامت بن چکے ہیں۔ بے شمار ایسے لوگ ہیں جنھیں یہ نہیں معلوم کہ ان کی شرٹ پر یہ کس کی تصویر ہے، بتانے پر خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔

بولیویا کے جنگل سے ان کا آخری خط ان کے بچوں کے نام موصول ہوا تھا، جس میں دیگر نصیحتوں کے علاوہ ایک یہ تھی کہ 'بچو پیشہ ور انقلابی بننا'۔ آج ان کے تینوں بچے کمیونسٹ ہیں، ایک بیٹی ارجنٹائن کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی رکن ہے۔ گزشتہ چند برس قبل وہ ہندوستان آئی تھی۔ دہلی ائیرپورٹ پر لاکھوں لوگ اس کا استقبال کرنے آئے تھے۔ مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ آپ میںسے بیشتر لوگ میرے والد کی وجہ سے میرا استقبال کرنے آئے ہیں، اس پر مجھے فخر ہے۔

کیوبا میں انقلاب کے بعد نجی ملکیت کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ آج بھی یو این او کی رپورٹ کے مطابق کیوبا کا تعلیمی بجٹ 11 فیصد ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے، وہاں 99.99 فیصد شرح تعلیم ہے اور یہ بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کیوبا میں ہر خاندان کو دال، چاول، مکئی، چینی، کیلا اور مہینے میں دو بار مرغی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ لاطینی امریکی ملک وینیزویلا میں بہت سے اداروں کو قومیا لیا گیا ہے۔ ہیوگو شاویز کے کارناموں سے کون آگاہ نہیں ہے؟ شرح تعلیم 98 فیصد ہے۔ یوروگوائے کا صدر جوسے موجیکا صدارتی محل میں رہنے کے بجائے ایک چھوٹے سے فارم ہائوس میں رہتا ہے۔

بائیں بازوکا یہ انقلابی سوشلسٹ اپنے فارم ہائوس میں جو کہ اس کی بیوی کی ملکیت ہے، گل دائودی اور سدا بہار کے پھول اگاتا ہے اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے۔ جنوبی امریکا کے 35 ملکوں میں سے 33 ملکوں میں بائیں بازو کے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹوں کی حکومتیں ہیں۔ یہ ممالک امریکی سامراج کے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ بم ہیں اور نہ میزائل۔ سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں برازیل میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے کہ 'ہمیں فٹبال نہیں روٹی اور روزگار چاہیے'۔ جب کہ ہمارے ملک میں حالیہ بجٹ میں صحت کا بجٹ 27 ارب، تعلیم کا 67 ارب اور دفاع پر 700 ارب اور قرضوں کے سود کی ادائیگی پر 113 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ پاکستان جنگی ساز و سامان کی خرید و فروخت میں دنیا کا 11 واں نمبر کا ملک ہے، تعلیم میں 132 واں اور صحت میں 134 واں ہے۔ غربت، کرپشن، مہنگائی، بے روزگاری، دہشت گردی، ناخواندگی اور صحت کے میدان میں دنیا کے چار آخری ملکوں میں ایک ہے۔ یہ چار ممالک صومالیہ، ایتھوپیا، سوڈان اور افغانستان ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ہم نے دفاعی بجٹ کم کردیا تو ہندوستان ہمیں ہڑپ کرجائے گا۔ امریکا کے پاس 30 ہزار ایٹمی وار ہیڈ ہیں، جب کہ لاطینی امریکی ملکوں میں سے کسی کے پاس ایٹمی وار ہیڈ نہیں اور نہ میزائل۔ ارجنٹینا، وینیزویلا، بولیویا، یوروگوائے، ایکواڈور، پیرو اور کیوبا وغیرہ نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے لیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کررہے ہیں اور کرچکے ہیں۔ کیوبا میں کینسر اور ہیپٹاٹائٹس کے امراض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

آئی ایم ایف کا کوئی قرضہ نہیں۔ پھر امریکا کیوں انھیں ہڑپ نہیں کرتا؟ امریکا خود اس وقت دنیا کا مقروض ترین ملک ہے، اس کی معیشت انحطاط پذیری کی جانب گامزن ہے۔ امریکا، لاطینی امریکی ممالک پر حملہ نہیں کرسکتا تو پھر ہندوستان ہم پر کیسے کرسکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں 34 کروڑ افراد بے روزگار ہیں، لاکھوں انسان اپنا خون، گردہ اور دیگر اعضا بیچ کر روٹی کھانے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ چند سال قبل دس کروڑ مزدوروں نے تاریخی ہڑتال کرکے ہندوستان کی چولیں ہلادیں۔

ہندوستان کے 17 صوبوں کے 200 اضلاع میں مائو نواز کمیونسٹ مسلح جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ دن جلد آنے والا ہے کہ لاطینی امریکی ملکوں کی طرح ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سمیت جنوبی ایشیائی ممالک بھی نجی ملکیتوں کو سماجی ملکیت میں تبدیل کردیں گے۔ پھر امریکا، افریقہ، ایشیا اور یورپ میں ایک عالمی انقلاب برپا ہوگا، جہاں ساری دولت اور وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں گے، سب مل کر کام کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔