کالا سانپ

 برصغیر میں انگریز دور سے اعلیٰ عدالتوں نے ازخود نوٹس کے استعمال سے انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے۔



تاریخ میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے اراکین نے ساری رات اپنے فرائضِ منصبی انجام دیے اور آئین میں 26ویں ترمیم منظور کرلی۔ بلاول بھٹو زرداری نے ترمیم کی منظوری کے موضوع پر کہا کہ ’’ملک میں کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدلیہ ہے، ہم نے اٹھاون ٹو بی کا اختیار صدر سے واپس لیا تو عدالت نے وہ اختیار اپنے پاس رکھ لیا۔ ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کردیا گیا اور ایک وزیراعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر فارغ کر دیا گیا‘‘۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو ترمیم کی منظوری کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام کے بعد آئین اور قانون کی حکمرانی کا ایک سنگ میل عبور ہوا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ آئینی ترمیم ووٹ کو عزت دو ہے، یوں چند ججوں کی عدلیہ پر بالادستی کا دور ختم ہوا اور پارلیمان کی بالادستی کا نیا دور شروع ہوا۔

پاکستان کے قیام سے 1996تک عدلیہ انتظامیہ کے تابع رہی۔ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد عدلیہ کی آزادی کا دور شروع ہوا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی ہدایت کی ۔مگر جسٹس افتخار چوہدری کے انکار پر وہ معتوب قرار پائے اور ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ وکلاء نے معزول چیف جسٹس اور دیگر کی بحالی کی تحریک چلائی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے وکلاء تحریک کی حمایت کی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک چیف جسٹس نے عوامی انداز اختیار کیا۔ ملک کے مختلف شہروں میں گئے جہاں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ 2007 میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد 2008کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ آصف زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر صدر آصف زرداری نے مسلم لیگ سے کیے گئے معاہدے کو نظرانداز کرتے ہوئے معزول جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے معزول ساتھیوں کو بحال کرنے سے انکار کیا،پھر وکلاء تحریک کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ میاں نواز شریف عملی طور پر وکلاء تحریک میں شامل ہوئے۔ جب وہ بیرسٹر اعتزاز احسن کے ہمراہ ایک بڑے جلوس میں اسلام آباد روانہ ہوئے تو جلوس گوجرانوالہ پہنچا تھا کہ میاں نواز شریف کو بذریعہ فون کال معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر معزول ججز کی بحالی کی خبر سنائی گئی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے عملاً ایک متوازی حکومت قائم کرلی ۔ انھوں نے 18ویں ترمیم میں ججوں کے تقرر میں پارلیمنٹ کے کردار کو مسترد کیا اور پھر ان کی ہدایت پر آئین میں 19ویں ترمیم ہوئی۔ اس ترمیم کی بناء پر ججوں کے تقرر میں پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو بے اثر کردیا گیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے جسٹس افتخار چوہدری کے ہر اقدام کی حمایت کی۔ میاں نواز شریف میمو اسکینڈل کے معاملے میں سیاہ کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی آمریت کے خلاف سب سے پہلے انسانی حقوق کی عظیم کارکن عاصمہ جہانگیر نے آواز اٹھائی۔ جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پاناما اسکینڈل میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیا تو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مسلسل تالیاں بجائیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن جسٹس ثاقب نثار کے سب سے بڑے حامی تھے۔ ثاقب نثار نے افتخار چوہدری کے نقشِ دم پر چلتے ہوئے ایک متوازی حکومت قائم کی مگر چیف جسٹس ثاقب نثار کی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا تو پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کا خیال آیا۔

سینیارٹی کی بنیاد پر آنے والے چیف جسٹس صاحبان میں سے کچھ نے انسانی حقوق کے تناظر میں اہم فیصلے کیے۔ ان میں جسٹس تصدق جیلانی اور موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شامل ہیں۔ جسٹس تصدق جیلانی نے بار کونسل کے سینئر رکن اختر حسین ایڈووکیٹ کی تجویز پر پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی 11/ اگست 1947کی تقریر کو سپریم کورٹ کی عمارت میں آویزاں کرنے کا فیصلہ کیا مگر اب اختر حسین کا کہنا ہے کہ جسٹس ثاقب نثار کے دور میں یہ تقریر ہٹا دی گئی تھی۔ بانی پاکستان کی یہ تقریر اعلیٰ عدلیہ کے لیے ایک نصب العین کی حیثیت رکھتی ہے۔ جسٹس تصدق جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلہ دیا جس پر ابھی تک مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ سابق چیف جسٹس گلزار حسین نے بہت سے متنازع فیصلے کیے مگر نچلی سطح تک اختیار کا بلدیاتی نظام کے بارے میں ان کا فیصلہ شہروں کی ترقی کے حوالے سے اہم ہے مگر نہ تو پیپلز پارٹی نہ ہی مسلم لیگ ن نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے حق میں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور جج سول اسپتال خودکش حملہ میں کوئٹہ اور فیض آباد دھرنا کیس کے حوالے سے تاریخی فیصلے کیے تھے جس کی بناء پر وہ زیرِ عتاب آئے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنے دور میں عدالتوں کی کارروائی براہِ راست ٹی وی پر دکھائی اور پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی حمایت کرکے اپنے اختیارات کو کم کیا ۔تاہم ان کے دور میں سیاسی کارکنوں خاص طور پر خواتین کی گرفتاریوں ، لاپتہ افراد کے اہم معاملے پر اور بعض ججوں کی جانب سے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کے ہراساں کرنے کے خلاف خط جیسے معاملات کو نظرانداز کیا گیا اور محسوس ہونے لگا کہ تحریک انصاف کے مقدمات میں ان کا رویہ معروضیت پر مبنی نہیں رہا۔

26ویں ترمیم کے حوالے سے بہت سے سوالات ہورہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کہا کہ ’’ سپریم کورٹ میں اب یہ سوال ہر روز اٹھے گا کہ کیس عام بینچ سنے گا یا آئینی بینچ۔‘‘ ایک اہم ترین معاملہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ججوں میں سے ایک کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ترقی پانے کا ہے۔ انتظامیہ کی بالادستی کا مطلب خفیہ ایجنسیوں کے کردار کا اہم ہونا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اہم عہدوں کے تقرر کے لیے امیدواروں کے سیکیورٹی کلیئرنس دینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ میں وائس چانسلر کے تقرر کے امیدوارکو سیکیورٹی کلیئرنس نہیں مل سکی اور وہ عہدہ حاصل نہ کر سکے۔ ایک اہم معاملہ سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم کرنا ہے۔

 برصغیر میں انگریز دور سے اعلیٰ عدالتوں نے ازخود نوٹس کے استعمال سے انسانی حقوق کا تحفظ کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بدترین طرزِ حکومت قائم ہے اور شہریوں کو بنیادی سہولتیں نہیں ملتیں ، ہر شخص پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے حصول کے لیے جدوجہد کرتا نظر آتا ہے وہاں ملک کی عدالتوں کے ازخود نوٹس کے ذریعے عوام کو خاصا ریلیف دلوایا ہے اگرچہ کہ بعض چیف جسٹس صاحبان نے اس اختیار کو غلط استعمال کیا۔ اب سپریم کورٹ سے یہ اختیار مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔ دوسری طرف برسرِ اقتدار حکومتیں اچھی طرزِ حکومت کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں چیف جسٹس کے اس اختیار کو سینئر ججوں کی کمیٹی کے فیصلے سے مشروط کردیا گیا تھا مگر اب سپریم کورٹ کا یہ اختیار ختم ہونے سے عوام کے مسائل کی دادرسی کا یہ راستہ بند ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اپیل کی فیس 50 ہزار سے 50 لاکھ کردی گئی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں متوسط طبقے کے افراد کے لیے صرف مقدمہ کی سپریم کورٹ کی اتنی فیس جمع کرنا مشکل ہوگا۔ کسی بھی سائل کو سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے ایڈووکیٹ اور ریکارڈ کی فیس دینی پڑتی ہے، پھر وکیل کی فیس علیحدہ ہوتی ہے ۔ اب سپریم کورٹ کی فیس اتنی زیادہ ہونے سے عام آدمی کے لیے اپیل دائر کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک سابق اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے 5جج صاحبان آئینی بنچ کا حصہ ہونگے اور باقی 7 عام مقدمات کی سماعت کریں گے، یوں مقدمات کا بوجھ کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے