کوچۂ سخن

جی چاہتا ہے تجھ سے ملوں پھر کسی طرح  دو سال تیرے ساتھ رہوں پر نئی طرح 


عارف عزیز October 30, 2024
فوٹو: فائل

غزل
جی چاہتا ہے تجھ سے ملوں پھر کسی طرح 
دو سال تیرے ساتھ رہوں پر نئی طرح 
بارش ہوئی تو پیڑ سبھی دھل گئے مگر 
دل کا درخت سوکھ گیا ہے بری طرح
اب کون تیرے ناز اٹھائے گا میری جان!
اب کون تجھ سے پیار کرے گا مری طرح 
اب کون میرا غصہ سہے گا تمہارے بعد
اب کون میرا دھیان رکھے گا تری طرح 
ہاں تیرے بعد میں بھی بدل جاؤں گا بہت 
سچ ہے کہ تو بھی رہ نہ سکے گی اِسی طرح 
جب دل کرے گا خود ہی منائے گی مانے گی
میں نے منا کے دیکھ لیا ہے سبھی طرح 
(امتیاز انجم۔ اوکاڑہ)

غزل
شدت کا دردِ ہجر ہو لیکن دوا نہ ہو
مولا ترے فقیر کو ایسی سزا نہ ہو 
شاید غمِ فراق کے دکھ درد ایک ہوں
دل کے معاملات پہ رونا جدا نہ ہو 
شاید ضروریاتِ جہاں وقت ہی نہ دیں 
شاید نمازِ عشق کا سجدہ ادا نہ ہو
ممکن ہے عمر بھر ہی جدائی کا رس پئیں
لب پر ہمارے خیر کی کوئی دعا نہ ہو 
جیسے کسی عروج سے آیا مجھے زوال 
یوں آسماں سے کوئی زمیں پر گرا نہ ہو
ایسا کوئی جہان جہاں سانس لے سکوں 
ہو اس طرح کا دیس جہاں پر وبا نہ ہو
یہ آج تک ازل سے کسی کی نہیں ہوئی 
دنیا کے اس سلوک سے اتنا خفا نہ ہو 
یہ اور بات ہے کوئی لفظ ہو نہ یاد 
ایسا نہیں کہ اُس نے تکلم کیا نہ ہو 
میں نے بھی ہجر کاٹ لیا اور چپ رہا 
میں چاہتا تھا عشق میں کچھ بھی نیا نہ ہو
(مستحسن جامیؔ۔ خوشاب)

غزل
شیشے سے محبت ہے بھرے جام سے خوش ہوں
میں رند ہوں اور بادۂ گل فام سے خوش ہوں
اک دن کا مسافر تھا سو رودادِ سفر کیا
اُس صبح سے نالاں ہوں نہ اِس شام سے خوش ہوں
میں خونِ جگر دے کے غزل سینچ رہا ہوں
جو کام لہو مانگے میں اُس کام سے خوش ہوں
اُس شہر کی گلیوں پہ فدا ہوں دل و جاں سے
اُس در سے عقیدت ہے تو اُس بام سے خوش ہوں
کب سے ہوں رواں منزلِ مقصود کی جانب
تھک ہار کے بیٹھا ہوں نہ آرام سے خوش ہوں
انکار کی برسات میں اقرار کی رم جھم
الفاظ میں چھوڑے ہوئے ابہام سے خوش ہوں
کس موڑ پہ آ کر یہ سفر ختم ہوا ہے
آغاز پہ افسوس نہ انجام سے خوش ہوں
(محمد ولی صادق کوہستان۔خیبرپختون خوا)

غزل
جو بچ گئی تھی زندگی فرقت کے نام ہو گئی
منزل پہ کیا پہنچنا تھا رستے میں شام ہو گئی
دو پل کا اِک سکون تھا بے چینی پھر حیات کی
یہ بھی عجب کہانی تھی پل میں تمام ہو گئی
الفت سے تیری عمر کا مطلب سمجھ میں آ گیا
تیرے سبب سے زندگی ناقص سے تام ہو گئی
شوخی تو اُس کی دیکھیے محفل کے عین بیچ میں
جنبش وہ ایک چہرے کی طرزِ سلام ہو گئی
ساغر کے ایک دور کو سمجھے جو دورِ زندگی
گردش مرے نصیب کی گردشِ جام ہو گئی
محفل میں مجھ کو آنے کا جو سرسری سا کہہ دیا
اب وہ سمجھ رہا ہے کہ حجّت تمام ہو گئی
اُس بزم میں بھی بارہا ہم جا چکے ہیں دوستو
یارو جہاں پر خامشی خود اِک کلام ہو گئی
ساجد ؔکہیں سے ایک بھی اچھی خبر نہ مل سکی
لگتا ہے تیری زندگی بھی اختتام ہو گئی
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

’’قاتل آنکھیں ‘‘
ہائے اس شوخ طبیعت کی وہ قاتل آنکھیں
آج بھی دل میں یوں پیوست ہوئی جاتی ہیں
آج بھی تیر کی مانند کلیجہ چیریں
آج بھی اس کی نظر تند ہے پہلے کی طرح
ناتواں دل پہ گرے اب بھی تجلّی بن کر
سانس رک رک کے چلے اور اٹک جائے دم
آج بھی دھڑکنیں تھم جائیں نظر پڑتے ہی 
پھر زباں گنگ سی ہو جاتی ہے، جانے کیونکر 
کیا بتائیں کہ نہیں تاب ذرا سا اب تو
اس حسیں اور ستمگر کے شرابی نیناں
ہوش مندوں کو بھی مدہوش کئے دیتے ہیں
ہم بھی گھائل ہیں اسی نظروں کے 
اور اب بھی تو یوں پہلے کی طرح
دیکھ کر اس کی وہ قاتل آنکھیں 
ہم تڑپ جاتے ہیں بیکل ہوکر
مرغِ بسمل کی طرح 
مرغِ بسمل کی طرح
(شاہ محمد شان۔لاہور)

غزل
اک ہی خیال میں ہے بتائی تمام عمر 
یک طرفہ چاہتوں میں گنوائی تمام عمر 
رشتے بنیں گے دھوپ کی شدّت میں سائباں
جھوٹی کہانی سب نے سنائی تمام عمر 
تُو بھی تو ایک پل بھی میّسر نہیں ہوا 
حصّے میں میرے آئی جدائی تمام عمر 
ہم نے تو ایک خواب جو دریا کا دیکھ کر
صحرا میں اپنی خاک اڑائی تمام عمر
مدّت کے بعد آج وہ چہرہ دکھا مجھے 
جیسے سمٹ کے لمحے میں آئی تمام عمر
لیکن کچھ ایسے درد تھے، ہوتی رہی کسک
تھوڑی سی آگ تھی جو بجھائی تمام عمر
(عائشہ صدیقہ ۔گجرانوالہ)

غزل
اِس دل میں مچلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
یوں عشق میں جلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
جگنو کے تعاقب میں چلے آئے ہیں باہر
جنگل سے نکلنے کا اردہ تو نہیں تھا
سوچا بھی نہیں تھا کبھی جذبات مریں گے
یوں برف میں ڈھلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
بے ساختہ اشعار میں سچ ڈھل گیا ورنہ
یہ آگ اُگلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
سینے کی گھٹن کھینچ کے لے آئی گلی میں
یوں گھر سے نکلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
اشکوں کو چھپانے کے لیے بھیگ رہے ہیں
بارش میں ٹہلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
غم گھیر کے لائے تھے ہمیں شہرِ سخن میں
لفظوں سے بہلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
آصفؔ یہ رویوں کا ہی اک ردِ عمل ہے
یہ لہجہ بدلنے کا ارادہ تو نہیں تھا
 (یاسررضاآصفؔ۔ پاک پتن)

غزل 
بیج ہوں، شاخ بنوں گا میں،  ثمر آئے گا 
وقت کے ساتھ بدلنے کا ہنر آئے گا 
ہے جو کم بخت درختوں کی کٹائی میں مگن
دھوپ بڑھ جائے گی تو زیرِ شجر آئے گا 
آیتِ وصل کسی شام تلاوت کرنا 
دیکھنا چاند تری چھت پہ اُتر آئے گا 
ظلم کی آخری ہچکی ہے ابھی امبر پر
نامہ بر امن، نظر نجمِ سحر آئے گا
بانٹتے وقت یہ اولاد سے پیمان لیا
گھر میں دیوار اُٹھائیں گے تو در آئے گا
ماں اسی آس پہ زندہ ہے دلاورؔ اُس کا
لاپتہ لعل کسی شام تو گھر آئے گا
(دلاور حسین دلاور۔ ملتان)

غزل
بے سبب آوارگی سے دل کو بہلاتا تھا میں
شام ہو جاتی تو گھر واپس پلٹ جاتا تھا میں
اب کئی لوگوں میں ہو کر بھی بہت تنہا ہے وہ
کیسے اس کی اک صدا پر دوڑتا آتا تھا میں
جس جگہ بھی پاؤں دھرتا روشنی ہو جاتی تھی
جن دنوں اس کی گلی میں ناچتا گاتا تھا میں
دو دنوں میں اسکا اصلی رنگ ظاہر ہوگیا
دھوکہ کھاتا تھا پر اتنی جلدی کب کھاتا تھا میں
گھر کے پہلو سے گزرتی زندگی کی روڈ پر
شور تو ہوتا تھا لیکن سن نہیں پاتا تھا میں
ان دنوں مجھ میں ذرا سی بھی کشش ہوتی نہ تھی
پھر بھی آئے دن نئے تاروں سے ٹکراتا تھا میں
نیند سے کچھ دور ہوتا ہے علاقہ خواب کا
روز اٹھ کے اپنے گھر والوں کو سمجھاتا تھا میں
(احمد اویس۔ فیصل آباد)

غزل
جہانِ درد کا دل سے عجب وصال ہوا
کہ خون آنکھ سے نکلا تھا یہ کمال ہوا
وہ ایک پل بھی گزرتی نہ تھی بنا جن کے
انھی کے ساتھ مرا جینا اب محال ہوا
تھی ایک وقت میسر مجھے خوشی لیکن
میں خوش ہوا تھا بھلا کیوں مجھے ملال ہوا
کیا ہے ورد خدا کا مگر قیامت میں
ہے کون ربِ جہاں مجھ سے یہ سوال ہوا
ابھی تو دور ہے ساگر سے جرم کی دنیا
گنہ کیا نہ تھا پھر بھی یہ میرا حال ہوا
(رجب علی ساگر۔کنگز کیڈٹ کالج، گجرات)

غزل
اہلِ بینش کی نگاہ میں خود نمائی روگ ہے
بے وفائی روگ ہے غم کی دہائی روگ ہے
ہم بازارِعشق میں آئے ہمیں معلوم ہوا
لب کشائی روگ ہے ناآشنائی روگ ہے
مدتوں سے اس نگر میں رہ رہے ہیں ہم جہاں 
پارسائی روگ ہے شعلہ نوائی روگ ہے
چیخ کر کہتا تھا رسن ودار پہ کل ایک شخص 
ظلم سہنا روگ، ظالم کی خدائی روگ ہے
جب ملے وہ اس پری پیکر سے کہنا نامہ بر
کج ادائی روگ ہے تیری جدائی روگ ہے
(ا ے آرنازش۔ فیصل آباد)

غزل
وہاں پہ کس لئے تو بھی قطار باندھتا ہے
جہاں پہ خود ہی شکاری شکار باندھتا ہے
میں ا س کی قید سے آزاد ہونا چاہتا ہوں
اسی لئے وہ مجھے بار بار باندھتا ہے
تمہارے ہجر سے آنکھوں میں میری لالی ہے
مجھے ہی چھوڑ کے اوروں پہ پیار باندھتا ہے
کہ جس کے واسطے دنیا بھی چھوڑ دی فیضی
ہمارے واسطے دل میں غبار باندھتا ہے
یوں تیرے بعد بھی فیضی ؔکو یہ رہا ہے خیال 
کسی بھی غیر کا کیوں انتظار باندھتا ہے
(اویس فیضی ۔پھلروان، سرگودھا)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے