لاہور:
رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں ڈسکشن اس سے آگے بڑھ چکی ہے، پارٹی کی انٹرنل ڈبیٹ ہے جو اندر ہوگی خود احستابی بھی ہوگی لیکن اس وقت سب سے بڑا مدعا یہ ہے کہ 25 کروڑ کے اس جوہری ملک میں جہاں بنیادی شخصی آزادیاں اور انسانی حقوق برائے نام کے ہیں.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ان شاء اللہ اللہ کے حکم سے خان صاحب بھی باہر آ جائیں گے حکومتوں کا بھی فیصلہ ہو جائے گا کہ اس مینڈیٹ کا کیا ہونا ہے جو چرایا گیا اس ظلم کا کیا ہونا ہے لیکن جن گھروں میں لاش گئی ہے اس کا تو کوئی مداوا نہیں ہے ان چیزوں پر بات ہونی چاہیے.
سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی نے کہا کہ میرا خیال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر جو کچھ اور بظاہر تقسیم نظر آ رہی ہے جب حکومتی دباؤ آتا ہے تو پارٹیاں اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرتی ہیں لیکن یہاں پر جو تاریخی فرق ہے کہ اس کا اثر عوام پر نہیں پڑ رہا، پارٹی کا ووٹر اس کے ساتھ کھڑا ہے، باقیوں کی ان کو کوئی پروا نہیں ہے کہ پارٹی میں کوئی بائیں ہو جائے یا دائیں ہو جائے.
ایک بندہ ہے جس کو کہے گا وہ لیڈر ہوگا، جس کو وہ نہیں کہے گا وہ نہیں ہو گا اس لیے حکومت کا یا حالات کا جو بھی دباؤ ہے اس کے بعد جو صورتحال بنی ہے وہ پی ٹی آئی کی بہ نسبت ملک کیلیے زیادہ چیلنجنگ ہے۔ مجھ سے پوچھیں کیونکہ میں حکومتوں میں رہا ہوں، حکومت کے لیے زیادہ چیلنجنگ ہے، جو پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے اس کو بعض لیورایجز ہوتے ہیں، پولیو زدہ حکومت ہے ۔