شہزادہ کریم آغا خان ایک عہد ساز شخصیت

اسماعیلی کمیونٹی آغا خان چہارم کی قیادت میں ایک زندہ مثال بن کر ابھری


زاہدہ حنا February 09, 2025

یہ دسمبر کی ایک شام تھی کراچی کی کسی ادبی محفل میں بیٹھے ہوئے کسی نے سرگوشی میں کہا ’’شہزادہ کریم آغا خان آئے ہیں۔‘‘ ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی جیسے سب کسی درویش کی آمد کا احترام کر رہے ہوں۔ اسماعیلی مسلمانوں کے انچاسویں امام اور ترقی علم اور انسان دوستی کے علمبردار جنھیں دنیا صرف ان کی روحانی قیادت کے لیے نہیں بلکہ انسانی خدمت کے بے مثال جذبے کے لیے بھی جانتی ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان کی زندگی ان رہنماؤں میں شمار ہوتی ہے جنھوں نے قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے طاقت اور سیاست کے بجائے علم خدمت اور ترقی کو اپنا ہتھیار بنایا۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایسے بے شمار منصوبے بکھرے پڑے ہیں جو ان کے ویژن کا نتیجہ ہیں۔ شمالی علاقوں کے دیہات سے لے کر کراچی کے بلند و بالا تعلیمی اور طبی اداروں تک ہر جگہ ان کے نام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان کی سرپرستی میں چلنے والے آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) نے پاکستان میں صحت تعلیم دیہی ترقی اور ثقافتی ورثے کے تحفظ میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقوں میں جہاں ایک وقت میں بنیادی سہولیات ناپید تھیں وہاں آغا خان فاؤنڈیشن نے نہ صرف اسکول اور اسپتال بنائے بلکہ ان دور افتادہ وادیوں میں علم اور ترقی کی ایسی شمعیں روشن کیں جو آج تک جل رہی ہیں۔ گلگت، ہنزہ اور چترال کے وہ علاقے جہاں کبھی غربت اور جہالت کا اندھیرا تھا آج وہاں معیاری تعلیم کی روشنی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی اور اسپتال جو کراچی میں قائم کیے گئے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جدید طبی سہولیات کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ اور ڈاکٹرز دنیا کے مختلف ممالک میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔

لیکن یہ کہانی صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ افریقہ کے صحراؤں سے لے کر ایشیا کے پس ماندہ علاقوں تک، شہزادہ کریم آغا خان کی کوششوں نے ان گنت زندگیاں بدل ڈالیں۔ انھوں نے ہمیشہ انسانی فلاح و بہبود کو اپنا مقصد بنایا۔ جدید دور میں جہاں ترقی یافتہ اقوام اپنی برتری کے نشے میں چور ہیں وہاں آغا خان چہارم نے پس ماندہ قوموں کے لیے مواقع پیدا کیے انھیں خود کفیل بنایا اور ترقی کا وہ خواب دکھایا جسے عملی جامہ پہنانا بظاہر ناممکن لگتا تھا۔

اگر پاکستان کے سماجی منظرنامے پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ترقی اور جدیدیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن نااہلی اور فرقہ واریت رہی ہے۔ مگر آغا خان چہارم کے منصوبے ان سب سے بالاتر ہو کر خالصتاً انسانیت کی خدمت کے اصول پر استوار کیے گئے۔ ان کے تحت چلنے والے تعلیمی ادارے ہوں یا صحت کے مراکز ہر جگہ میرٹ شفافیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی حکمرانی ہے۔ یہاں نہ تو سیاست کا زہر گھلنے دیا گیا نہ ہی کسی مخصوص طبقے کی اجارہ داری قائم ہونے دی گئی۔

اسماعیلی کمیونٹی جو دنیا بھر میں ایک مربوط اور ترقی یافتہ برادری کے طور پر جانی جاتی ہے۔ آغا خان چہارم کی قیادت میں ایک زندہ مثال بن کر ابھری۔ پاکستان میں اس کمیونٹی کا کردار ہمیشہ امن ترقی اور بھائی چارے پر مبنی رہا۔ یہ لوگ جہاں بھی گئے اپنے علم محنت اور دیانت داری اور خدمت گزاری کی بدولت جانے گئے۔ انھوں نے کاروبار میں شفافیت سماجی خدمت میں اخلاص اور علمی ترقی میں جدیدیت کو اپنا شعار بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی برادری آج دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک ترقی پسند پرامن اور مہذب کمیونٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان نے ہمیشہ اتحاد ترقی اور روشن خیالی پر زور دیا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک قوم کی ترقی صرف معاشی خوشحالی سے نہیں بلکہ فکری اور تعلیمی ترقی سے ممکن ہے۔ ان کے ادارے آج بھی اسی فلسفے پر کاربند ہیں۔ اگر ہم ان کے وژن کو سمجھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ان کی سوچ محض ایک مخصوص برادری کے لیے نہیں تھی بلکہ وہ ایک ایسے سماج کا خواب دیکھتے تھے جہاں ہر شخص کو برابری کے مواقع میسر ہوں جہاں غربت اور جہالت کے اندھیرے ختم ہوں اور جہاں ترقی محض چند لوگوں کا استحقاق نہ ہو بلکہ ہر فرد اس میں برابر کا شریک ہو۔

شہزادہ کریم آغا خان کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر نیت خالص ہو مقصد واضح ہو اور طریقہ کار دیانت داری پر مبنی ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خدمت اور ترقی کی راہ میں نہ کوئی مذہب آڑے آتا ہے نہ کوئی سیاست اور نہ ہی کوئی جغرافیائی سرحد۔ اگر کچھ اہم ہے تو وہ صرف اور صرف انسانیت ہے۔ اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں آج بھی آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

میری بڑی بیٹی فینانہ نے 1996 میں آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں کمیونٹی ہیلتھ سائنسز میں دو برس تک کام کیا۔ وہ اکثر ذکر کرتی تھی کہ وہاں نہ صرف اسے بہت سیکھنے کو ملا بلکہ وہاں ریسرچ کا بڑا اعلیٰ معیار بھی تھا، وہ اس کی پہلی نوکری تھی اور اس ادارے اور وہاں موجود ٹیم سے اس نے بہت کچھ سیکھا اور وہ آج بھی اس کے کام آرہا ہے۔

شہزادہ کریم آغا خان کا رخصت ہو جانا اسماعیلی کمیونٹی کے لیے تو بہت بڑا نقصان ہے ہی مگر اس کے ساتھ دنیا ایک بہت زیرک مدبر اور مخلص رہنما سے محروم ہو گئی۔ ان کے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ پر کرنا آسان نہیں ہے۔ اس دنیا کو بہت سے شہزادہ کریم آغا خان جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں اور شہزادوں کو ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں