ہم تین دوستوں، یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ والے ڈاکٹر خلیل طوقار، میں نے اور ڈاکٹر یوسف خشک وائس چانسلر شاہ عبد الطیف یونیورسٹی خیر پورنے ایک خواب دیکھا تھا کہ کیوں نہ پاکستان ، ترکیہ اور آذربائیجان کے درمیان ایک ثقافتی پل تعمیر کیا جائے۔ ہم نے اس تنظیم کے اغراض و مقاصد لکھے، کچھ دیگر بنیادی باتیں بھی طے کیں اور اپنے محدود وسائل کے مطابق اس پر کام کچھ آگے بھی بڑھایا۔ اسی دوران میں خبر ہوئی کہ صدر جمہوریہ ترکیہ اور پاکستان کے عظیم دوست عالی جناب رجب طیب اردوان کا دورہ پاکستان طے ہو گیا ہے۔
ہمارے یہاں سیاست میں بہت کافی ہنگامہ خیزی ہو رہی ہے جس پر بات بھی ہو سکتی ہے لیکن رجب طیب اردوان آ رہے ہوں اور کسی دوسرے موضوع پر لکھا جائے، یہ زیب دیتا نہیں۔ پس، میں نے عطا اللہ تارڑ کے دروازے پر دستک دی۔ عطا اللہ تارڑ ہماری سیاست کی نئی دریافت تو نہیں ہیں لیکن اپنی بھرپور توانائی اور جوش و جذبے کے باوجود نہایت سنجیدہ، با اخلاق اور مخلص انسان ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ آٹھ دس برس سے سیاست میں جو چلن اختیار کیا گیا جس سے کسی کی پگڑی سلامت نہیں بچی، ایسے ماحول میں یہ ایک بالکل مختلف دریافت ہیں جو قومی صحافت میں بدزبانی کے پھیلے ہوئے وائرس کو لگام دینے میں کام یاب رہے ہیں۔ یوں ان سے کچھ دریافت کرتے ہوئے یہ خطرہ نہیں ہوتا کہ چکر دے جائیں گے لہٰذا میں نے ان سے اس دورے کی بابت دریافت کیا۔ دوسری شخصیت جس سے میں نے یہ سوال کیا، وہ ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو تھے۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں تو نئے ہیں لیکن خواب دیکھنے والے درد مند ترک ہیں۔ حال ہی میں سفیر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ہے اور انھوں نے یہاں آتے ہی رسمی سفارت کاری کے ساتھ ساتھ پبلک ڈپلومیسی کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ یوں دونوں برادر ملکوں کے درمیان علمی، ادبی اور ثقافتی شعبوں سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے مثلاً کیا یہ دل چسپ بات نہیں کہ اس بار دسمبر میں ترک سفارت خانے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت منایا گیا۔ کسی دوست ملک کے سفارت خانے میں ایسی تقریب منانے کا یہ پہلا واقعہ ہے جس نے ہمیشہ سے پر جوش اور ہر خلوص تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا کر دی ہے۔ مجھے نہ صرف اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا بلکہ خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ہے۔
یہاں بتانے والی بات یہ ہے کہ ان دونوں اہم شخصیات نے صدر ایردوان کے دورہ پاکستان کے جو مقاصد بتائے، ان بہت سی باتوں میں سے ایک بات میں ہمیں اپنے اس خواب کی تعبیر دکھائی دیتی ہے جو ہم تین دوستوں نے مشترکہ طور پر دیکھا تھا۔ عطا اللہ تارڑ اور ڈاکٹر اوغلو نے بتایا کہ صدر ایردوان کے اس دورے کے موقع پر ایک تو پاکستان-ترکیہ ہائی لیول اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (ایچ ایل ایس سی سی)کا ساتواں اجلاس ہو گا۔ 2019 کے بعد یہ اجلاس پہلی بار ہو رہا ہے۔ پانچ سال کے بعد اتنے اہم فورم کے سربراہ اجلاس کی اہمیت از خود بڑھ جاتی ہے۔خاص طور اس صورت میں تو مزید زیادہ ہو جاتی ہے جب ہماری طرف کے کچھ عاقبت نا اندیشوں نے طاقت میں آنے کے بعد پاکستان کے سفارتی تعلقات کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔ خیر، ترکیہ کو تو اس فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ کوئی بد خواہ کتنی ہی حماقتیں اور سازشیں کر لے، ترکیہ کے دل میں پاکستان کے لیے اور پاکستان کے دل میں ترکیہ کے لیے میل کبھی نہیں آ سکتی۔ بہرحال اتنے طویل عرصے کے بعد ہونے والا مشترکہ فورم کا یہ اجلاس غیر معمولی ہے جس میں تجارت، دفاع، زراعت اور لائیو اسٹاک جیسے اہم شعبوں میں تعاون کے فیصلے ہوں گے اور باہمی تجارت کے حجم میں غیر معمولی اضافے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
عطا اللہ تارڑ سے میرا سوال یہ تھا کہ یہ سب باتیں تو معمول کی ہیں کوئی نئی بات بتایے۔ انھوں نے بتایا کہ نئی بات صدر ایردوان کی ایک منفرد تجویز ہے جو انھوں نے کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم محمد شہباز شریف کے سامنے پیش کی تھی۔ بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں اس پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا، خاص طور پر قاہرہ کی ملاقات میں۔ یہ تجویز پاکستان، ترکیہ اور آذر بائیجان کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کی ابتدا ہو گی۔ صدر ایردوان کے اس دورے میں ایک دوسرے کے ساتھ غیر مشروط محبت کرنے والے ان تین ملکوں کے مشورے، بات چیت اور وسیع تر تعاون کے نظام کو حتمی شکل دی جائے گی جس میں پھر آذر بائیجان بھی شریک ہو جائے گا۔
کچھ اسی کا سوال میں نے ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سے بھی کیا تھا۔ انھوں نے بھی اس دورے سے متعلق بہت سی تفصیل بتائی لیکن ساتھ ہی یہ بتا کر خوشی کو دوبالا کر دیا کہ صدر اردوان اس خطے میں مواصلاتی رابطوں کے لیے سڑکوں کی تعمیر کا ایک وژن رکھتے ہیں جس کی عظیم یوریشیا تک توسیع ہو نی چاہئے۔ اس مواصلاتی نیٹ ورک کو خواب سے حقیقت میں بدلنے کے لیے مڈل کاریڈور اور سی پیک سے بھی مدد لی جائے گی۔ جغرافیہ سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا بھی آسانی کے ساتھ یہ سمجھ سکتا ہے کہ ڈاکٹر اوغلو کی زبان سے ہمیں کیا خوش خبری مل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عطا اللہ تارڑ ہوں یا ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلودونوں نے اپنے انداز میں ایک بات ہی کہی ہے اور ان تین ملکوں کے درمیان ثقافتی روابط کے قیام اور اضافے کے لیے ہمارے چھوٹے سے خواب کی یہ عظیم تعبیر ہے جس نے ہمارے دل خوشی سے بھر دیے ہیں۔
پاکستان، ترکیہ اور آذر بائیجان کے درمیان مواصلاتی روابط میں با معنی پیش رفت یقینا خطے میں تجارت، معاشی تعاون اور اس کے نتیجے میں تینوں برادر قوموں کے عوام کے لیے خوش حالی کا باعث بنے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ملک بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔ مشرق وسطی میں اسرائیل کی حالیہ بدترین جارحیت، اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی اور مختلف سطحوں پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ضمن میں بھی یہ رابطے ایک نئی دنیا کی تعمیر کا ذریعہ بنیں گے۔ اس نئی دنیا کی تعمیر کے سلسلے میں پاکستان اور ترکیہ کا مشترکہ خواب سے جس میں آذر بائیجان بھی شریک ہو رہا ہے، کیوں اس پیش رفت سے زیادہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں اور کیوں اس کے زیادہ فائدہ مند ہونے کی توسیع کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کی گفتگو سے ملتا ہے۔ میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے جو بات کہی، وہ دل کے تار ہلا دیتی ہے۔
وہ کہنے لگے:
' ایکسیلینسی! قدرت کا یہ فیصلہ ہے کہ ہم شانہ بہ شانہ چلیں۔ اس سے ہمیں کوئی مفر نہیں۔ نا گزیر ہے کہ ہم دونوں بھائی ( پاکستان اور ترکیہ) ایک بار پھر ایک قوم اور ایک ملک ( توجہ کیجیے، ایک قوم اور ایک ملک) کی حیثیت سے مل بیٹھیں۔ اپنے انداز فکر میں تبدیلی لائیں اور ہمارے مشترکہ مفاد میں جو امکانات پیدا ہو رہے ہیں، انھیں ضائع مت ہونے دیں۔ یہ ترکیہ اور پاکستان ہی ہیں جو عسکری قوت، متحرک اور محنتی عوام، جغرافیائی قربت اور قدرتی وسائل کی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ دونوں یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اکٹھے ہو کر ان نعمتوں سے اپنے عوام کو فیض یاب کریں کیوں کہ یہ ایک فریضہ ہے جو قدرت کی طرف سے ان پر عاید کر دیا گیا ہے۔ اس فریضے کی ادائی کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔'
ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو کی یہ گفتگو بتا رہی ہے کہ پاکستان کے عظیم دوست رجب طیب اردوان کا یہ دورۂ پاکستان کتنے اہم وقت اور کتنے عظیم مقاصد کے لیے ہو رہا ہے۔ اپنے ترک بھائیوں کے ساتھ ان کی اپنی زبان میں گفتگو کی صلاحیت رکھنے والے وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر ایردوان کے درمیان پرخلوص دوستی اور ہم آہنگی ان نیک مقاصد میں دونوں ملکوں کی کام یابی کے امکانات کو یقین میں بدل دیا یے۔ ان خوب صورت توقعات کے ساتھ ہم اپنے معزز مہمان کا دل کی گہرائی سے خیر مقدم کرتے ہیں۔