لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے سب سے پہلے حکومت کو مبارک باد دوں گا، حکومت نے اپنے لیے انصاف کا پکا انتظام کر لیا ہے، اب کوئی ایشو نہیں رہا، جو مرضی کریں آپ آرام سے، کوئی چیلنج نہیں کرے گا، چیلنج ہو گا بھی تو آپ کے خلاف فیصلہ نہیں آئے گا.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جس پچھلی عدلیہ کی بات ہوتی ہے بہت زیادہ فیور دے رہی تھی وہ پی ٹی آئی کو اسی عدلیہ نے پھر جب حکومت ختم ہوئی تو انھوں نے اپنی طرف سے اسملبی توڑی تھی، اسی عدلیہ نے کہا تھا کہ یہ غلط توڑی ہے.
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ ویسے تو ججوں کی تعیناتی، ان کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر، انتظامی معاملہ ہے اس پر کوئی ایشو نہیں ہونا چاہیے لیکن یہاں پر دیکھا جائے گا کہ اس کے پیچھے کیا ارادہ تھا کیا مقصد تھا کہ یہ اتنا بڑا تنازع بن گیا، دیکھا جائے تو یہ حکومت نے ہمیشہ سے یہی کوشش کی کہ عوام کا مینڈیٹ تو ہمارے لیے نہیں ہے لیکن اپنے آپ کو مضبوط کیا جائے اس کے لیے انھوں نے مختلف قسم کی قانون سازی کی.
تجزیہ کار عامرالیاس رانا نے کہا کہ اس ملک میں سب چیزیں درست ہیں، اعتراضات بھی درست ہیں، ان کی پلاننگ اور کورٹ پیکنگ جو ہوتی ہے یہ ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے، آپ کو یاد ہو گا ثاقب نثار کے زمانے میں 2030 ، 2032 تک کے چیف جسٹس اپوائنٹ کر دیے گئے تھے، ہم 77سال سے ایک ہی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کی.
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہاکہ ججوںکی تقرری میں سیاست ہونی نہیں چاہیے تھی لیکن آپ شروع سے دیکھیں کہ جب مخالف اور حامی ججوں میں توازن نہیں رہتا، پہلے بھی فل بینچ بنے تو اس میں بھی مسائل پیدا ہوتے رہے، اب ان کو پھر نظر آرہا ہے کہ بیلنس آؤٹ ہو جائے گا تو اس بیلنس آؤٹ کو کرنے کیلیے احتجاج تو کریں گے، ظاہر ہے گورنمنٹ عدلیہ میں اپنی سیف سائڈ دیکھ رہی تھی۔