دہشت گردی اور ضلع کرم

ایسے افسوس ناک واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے


ایڈیٹوریل February 19, 2025

میڈیا کے مطابق ضلع کرم کی لوئر تحصیل میں ایک بار پھر نامعلوم شرپسندوں نے اشیائے خورونوش اور دیگر سامان لے جانے والی 100 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر اچانک فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں کم از کم ایک سیکیورٹی اہلکار کے جاں بحق جب کہ پولیس اہلکار اور کمسن بچی سمیت 7 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں فائرنگ کے بعد نامعلوم افراد کو گاڑیوں سے سامان لوٹ کر لے جاتے ہوئے اور سامان سے لدے ایک ٹرک سے آگ کے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص قبائلی اضلاع کے لوگ امن کے لیے ترس رہے ہیں۔ ان قبائلی اضلاع میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بدامنی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا اولین مطالبہ امن کی بحالی ہے۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور دیگر انتہا پسند عناصر نہ صرف خیبر پختونخوا کے عوام بلکہ ملک کی سلامتی اور ہم آہنگی کے ڈھانچے کے لیے بھی ایک فوری اور سنگین خطرہ ہیں۔

ایسے افسوس ناک واقعات کا تسلسل سے رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے،کیونکہ کسی بھی حکومت کا اصل فریضہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہے اور انھیں صرف باتوں اور اعلانات کی نہیں بلکہ عملاً آئین و قانون نافذ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے ۔ خیبر پختونخوا کا صوبہ، جو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے محاذ پرکھڑا ہے، طویل عرصے سے دہشت گردی کے ناسور کا شکار رہا ہے، جس کی بڑی وجہ اس کی افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہونا ہے جو کئی دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔

 پشاور جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا، جو کبھی ترقی اور خوبصورتی کی علامت تھا، یہ شہر ثقافتی اور کاروباری سرگرمیوں کا مرکز ہے لیکن آج بنیادی سہولتوں سے محروم نظر آتا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں کا خوف الگ ہے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں جہاں انفرااسٹرکچر کی کمی ایک مسلہ ہے وہاں سب سے اہم مسلہ دہشت گردی ہے ۔

حالیہ دنوں میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا کرم میں قیام امن کے لیے جو جرگہ ہوا اور اس کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا، اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہورہا، شرپسند عناصر کہاں سے آرہے ہیں؟ شرپسندوں کو پناہ کہاں ملتی ہے؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس معاملے میں سہولت کاری کررہے ہیںاور انھیں سرکاری اداروں کا کوئی خوف نہیں ہے۔کیا یہ تشویش کی بات نہیں ہے کہ شرپسندوں نے ٹرکوں پر فائرنگ ہی نہیں کی بلکہ ان پر لدا ہوا مال بھی اتارا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے اور آخر میں ٹرکوں کو آگ بھی لگا دی۔ یہ تو لاقانونیت کی انتہا ہے۔

قانون پسند اور امن پسند طبقوں کے لیے ایسے ماحول میں رہنا انتہائی المناک حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے تمام دستیاب وسائل، عزم، اور پختہ ارادے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس اس علاقے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی اختلافات کو پس پست ڈال کر کام کرنا ہوگا۔ قانون کی عملداری، ریاست و حکومت کی رٹ کے نفاذ اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت کو مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا۔

 بلوچستان میں بھی صورتحال خاصی خراب ہے ، تمام تر حفاظتی انتظامات کے حکومتی دعوؤں کے باوجود عسکریت پسندوں کے حملے نہ صرف جاری ہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ان میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان میں سے اکثر حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں اور حکومتی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ دراصل عسکریت پسندوں کی نئی حکمت عملی کا تسلسل ہے۔ ان حملوں کے باعث صوبے میں عوامی زندگی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بلوچستان میں عسکریت پسند اپنے حملوں میں تیزی لا کر ریاستی عملداری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی مسلح تنظیموں کو ٹی ٹی پی کی معاونت بھی حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بعض پشتون اکثریتی علاقوں میں بھی بلوچ عسکریت پسندوں نے کئی بڑے حملے کیے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں پاکستانی طالبان کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے اثرورسوخ کی وجہ سے بلوچ عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیار مل رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے کئی دھڑے اس وقت براہ راست بلوچستان کی بدامنی میں ملوث ہیں۔

 بلوچستان میں ’’دہشت گرد گروپس‘‘ سی پیک کے لیے اہم خطرہ ہیں ۔ افغانستان کی سیکیورٹی صورتِ حال نے مختلف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کا موقع دیا ہے، جس سے ان کی موجودگی، وسائل اور افغان سرحد سے باہر کارروائی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کی افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے درمیان نقل و حرکت میں آسانی ہے، کیونکہ طالبان حکومت کے پاس ان علاقوں کا موثر کنٹرول نہیں ہے۔

ایک وجہ ٹی ٹی پی کی دراندازی بھی ہے جو افراد کے چھوٹے گروپس کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے پاکستان بھیجتی ہے۔ اسی طرح افغان شہری ہیں جو پہلے افغانستان میں مسلح سرگرمیوں میں ملوث تھے اور اب ’’ ٹی ٹی پی‘‘ اور دیگر دہشت گرد گروپس کے ساتھ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اہم وجہ افغانستان سے انخلا کے دوران امریکا کی جانب سے چھوڑا گیا وہ جدید اسلحہ ہے جو دہشت گرد گروپس کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، کارروائیوں کے پس پردہ بھارت کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ طالبان کی سوچ کا ا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے، افغانستان کی طالبان حکومت دوحہ معاہدے کے تحت پابند ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان یا کسی ہمسایہ ملک کے خلاف دہشت گردی کے طور پر استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن صد افسوس افغانستان کی طالبان حکومت اس معاہدے پر عمل نہیں کررہی ہے۔ افغانستان کی حکومت کی وجہ سے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔

پاکستانی فوج بہرحال یکسو ہے اور وہ دہشت گردی کے جن کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے لیے پر عزم ہے۔ بدقسمتی سے اپنے دفاعی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ٹارگٹ اور آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چین سے پاکستان کی قربت کسی کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سی پیک کا منصوبہ اور اس میں پاکستان کی بھرپور شرکت پورے امریکی بلاک کے لیے ناپسندیدہ عمل ہے۔ سی پیک راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایک دنیا پاکستان کے لیے سیکیورٹی کے خطرات پیدا کررہی ہے، جب کہ پاکستان جانتا ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت ہے۔ ہماری مسلح افواج کو ایک کٹھن اور دشوار مرحلے سے گزرنا پڑرہا ہے، پاک فوج کا مورال بلند ہے۔

اسے محب وطن پاکستانی عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پاک فوج اور عوام شانہ بشانہ دکھائی دیں اور وقتی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ضربِ عضب اور رد فساد کی طرح ایک اور آ ہنی آپریشن عزم و ولولے سے جاری وساری رکھنا چاہیے۔ صوبائی حکومتیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے، ان میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ ریاستی سطح پر صوبوں میں سیکیورٹی پالیسی کا از سر نو جائز ہ لینے کی ضرورت ہے۔

 دہشت گردی کے خطرے سے حقیقی طور پر نمٹنے کے لیے صرف فوجی طاقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر انحصار کافی نہیں ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ان بنیادی وجوہات کو حل کیا جائے جو انتہا پسندی کو جنم دیتی ہیں، جیسے غربت، تعلیمی مواقعے کی کمی، بے روزگاری اور سماجی تنہائی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا حکومت کو ایسی پالیسیوں پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ اچھی حکمرانی کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنی بنیادی ذمے داریوں کی تکمیل میں مستقل مزاجی اختیار کی جائے اور دوسروں کے معاملات میں مداخلت یا حدود سے تجاوز کرنے کی خواہش سے بچا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں