اسلام آباد:
ووٹر لسٹ سے ووٹ کے اخراج سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ آئینی بینچ کے جسٹس جمال خان مندوخیل نے بنگلا دیشی نژاد پاکستانیوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان کو نہ پاکستانی تسلیم کیا جا رہا ہے اور نہ انکار کیا جا رہا ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے مولانا عزیز الحق کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست گزار مولانا عزیز الحق نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن ایکٹ 2017 وزیراعظم لیاقت علی خان کی جانب سے پاس کی گئی قرارداد مقاصد کے خلاف ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ آپ کہانی بیان نہ کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ یہ پاکستانی ہیں اور نہ بنگالی، ان کا اسٹیٹس کیا ہے۔
درخواست گزار مولانا عزیز الحق نے کہا کہ 1952 کی میری پیدائش ہے اور تب سے پاکستان میں رہ رہا ہوں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ کا شناختی کارڈ ہے؟ مولانا عزیز الحق نے بتایا کہ 1978 میں شناختی کارڈ جاری ہوا اور 2004 میں بھی نادرا نے شناختی کارڈ جاری کیا جبکہ 2014 میں ووٹر لسٹ میں بھی نام جاری کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کی شکایت کیا ہے، کیا ووٹر لسٹ میں اب نام نہیں۔ مولانا عزیز الحق نے کہا کہ میں قانونی طور پر پاکستان کا شہری ہوں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ مولانا عزیز الحق نے جواب دیا کہ مجھے غیر ملکی نہ کہا جائے، کبھی مجھے غیر ملکی کہا جاتا ہے اور کبھی ہوائی مخلوق کہا جاتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ کے بچوں کا تو شناختی کارڈ ہے۔
مولانا عزیز الحق نے کہا کہ پاکستان کی تقسیم کو جو مان لے اسکا کارڈ ایشو ہو جاتا ہے لیکن میں تقسیم کو نہیں مانتا، میں بنگلا دیش کو نہیں مانتا کیونکہ بنگلا دیش کو ماننے کا مطلب پاکستان کی تقسیم کو ماننا ہے۔ 26 ویں ترمیم وغیرہ کچھ بھی نہیں، اصل آئین ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بنگلا دیشی نژاد پاکستانیوں سے امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ان کو نہ پاکستانی تسلیم کیا جا رہا ہے اور نہ انکار کیا جا رہا ہے۔
جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ معتدد مرتبہ حکومت کو ہدایات دیں لیکن حکومت نے بنگالی شہریوں سے متعلق کچھ نہیں کیا۔ جب ملک دو لخت ہوا کچھ ادھر رہ گئے اور کچھ ادھر، ملک سے باہر نکالنا ہے تو نکال دیں، یا پھر ان کو ملک میں رکھنا ہے تو رکھیں لیکن کوئی پالیسی تو بنائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جب ہم سندھ ہائی کورٹ میں تھے تب بھی اس طرح کے متعدد کیسز سامنے آئے، ہم نے واضح ہدایات بھی دیں۔
مولانا عزیز الحق نے کہا کہ پاکستان کو کوئی نہیں توڑ سکتا، پاکستان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آئینی بینچ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے درخواست گراز کو سننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنا کیس بیان کرنے کے بجائے سیاسی تقرر بازی شروع کر دی۔
عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔