’’ہیڈ آیا تو چھوڑ دوں گا، ٹیل آیا تو مار دوں گا‘‘ تین بار پانچ روپے کے سکے سے ٹاس کیا گیا، بالکل فلمی انداز میں، نہایت ہولناک طریقۂ واردات۔ یہ میڈیا میں آئی ہوئی روداد ہے مصطفیٰ عامر قتل کی ۔
اس کیس سے جڑی تمام تر تفصیلات آپ روز اخبارات میں، ٹیلی وژن پر اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ، سن اور پڑھ رہے ہیں اور کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہوں گے۔ پاکستان میں خوشحال گھرانوں کے نوجوان کس طرح منشیات کی لت اور اس کے کاروبار سے منسلک ہیں، بیشتر والدین کو کچھ پتا ہی نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ والدین کو پتہ بھی ہو اور وہ سرپرستی بھی کرتے ہوں گے۔ ارمغان، مصطفیٰ عامر عرف تیمور، عثمان سواتی، ساحر حسن اور بہت سے دوسرے نوجوانوں کی تفصیلات بھی سامنے آ رہی ہیں اور تعجب ہوتا ہے کہ بائیس سے تیس سال کے نوجوان کس دھڑلے اور بے فکری سے منشیات کا کاروبارکر رہے ہیں، منشیات کا استعمال کرتے ہیں، نائٹ پارٹیاں کرتے ہیں۔
میرا موقف یہ ہے کہ جو لوگ پکڑ لیے گئے ہیں، ان کے والدین کیسے اپنے بیٹوں کے غلط کاموں سے ناواقف تھے؟ میں نہیں مانتی۔ دراصل یہ سارے نوجوان ایزی منی کے چکر میں اس کاروبار میں پھنسے ہیں، سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ کیا والدین کو اپنے بچوںکی سرگرمیوں کا علم نہیں تھا؟ یہ سوال ہے، جو ہر ایک کے ذہن میں آتا ہے۔
اگر کسی کا بیٹا بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی چلا رہا ہے، رات کو دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے، گھروں میں نائٹ پارٹیاں ہوتی ہیں، والدین اگر پڑھے لکھے بھی ہوں، تو سوال یہی ہے کہ انھوں نے کیوں نوٹس نہیں لیا ؟ ویسے بھی پوش ایریاز میں رہنے والی مخلوق باقی لوگوں سے کچھ الگ ہے۔
یہ علاقے صرف پیسے والوں کے ہیں، شرفا اور عزت دار لوگ بھی یہاں رہتے ہیں لیکن پوش ایریاز میں موجود ایلیٹ کلاس کے بچوں کے لیے قائم تعلیمی اداروں تک کے حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ دکھاؤے کا کلچر بھی عروج پر ہے، کون سے غیر قانونی کام ہیں جو کراچی میں نہیں ہو رہے۔ کمزور گھرانوں کے مقتولین کے ورثا سے معافی نامہ لکھوانا اور دولت کے ذریعے ان کا منہ بند کر دینا ایک عام سی بات ہے۔
والدین جب اپنی اولادوں کو کھلی چھوٹ دیں گے اور ان کے معمولات پر نظر نہیں رکھیں گے تو بڑے ہولناک نتائج نکلیں گے۔ آج کل بعض ماں باپ نے اپنی اولاد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جہاں جی چاہے جائیں، جو چاہیں وہ کریں، کیونکہ کراچی میں پوش ایریاز کے رہائشیوں کی پہچان صرف پیسہ ہے۔ یہ عیاشیاں اور یہ شاہانہ طرز زندگی صرف دولت سے ملتی ہے، پیسہ محنت سے کمایا جائے تو اسے خرچ بھی انسان سلیقے سے کرتا ہے ورنہ یہی پارٹیاں اور نشے کا استعمال غیر ضروری دولت اور طاقت سے ہوتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں مخلوط پارٹیاں کر رہے ہیں جن میں نشے کا استعمال عام ہے، کئی بنگلوں میںساری ساری رات پارٹیاں ہوتی ہیں، اولاد پر وہ والدین کیا نظر رکھیں گے جو خود اس لائف اسٹائل کے عادی ہوں، رات رات بھر جاگنا اور شور شرابہ کرنا اور دوسرے دن سہ پہر تک سوتے پڑے رہنے دینا۔
جنھیں لوگ اپر کلاس کہتے ہیں اس میں وہی لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس اسمگلنگ اور دوسرے ناجائز ذرائع سے کمانے والا پیسہ ہے۔ اس طبقے کے لوگوں کو یقین ہوچکا ہے کہ وہ امیر ہیں اور امیر آدمی چاہے کتنا بڑا جرم کر لے ، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ طبقہ امرا کے بچوں اور بڑوں کی عجیب نفسیات ہے، وہ اپنے سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھ سکتے ،اگر کسی مڈل کلاسیے دوست کے کپڑے اس سے زیادہ اچھے ہوں یا کسی کی گاڑی نئے ماڈل کی اور مہنگی ہو تو وہ ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اپنے ہدف کے خلاف سازش کرتے ہیں، اس کی ٹرولنگ کرتے ہیں۔
ساحر حسن معروف اداکار ساجد حسن کے فرزند ارجمند ہیں۔ اب اس بارے میں کیا کہا جائے ۔ بس اتنا ہی کہ خوشحال لوگ کس جانب چل نکلے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بڑی تباہ کن خبریں آرہی ہیں۔ ماں باپ کی حالت تباہ ہے، پہلے شتر بے مہار کی طرح اولادوں کو چھوڑ دیا اور اب جب پتا چل رہا ہے تو ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔
اپر کلاس کے ایک حصے میں جو کلچر پروان چڑھ چکا ہے، اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، صرف بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی بگڑ رہی ہیں، اسکول اور کالج میں فنکشن اور ایکسٹرا کلاس کے بہانے مختلف کیفے میں یونیفارم میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ میں پہلے بھی اس پرکالم لکھ چکی ہوں، آپ کی بیٹی مہنگا موبائل یا مہنگا پرفیوم یہ کہہ کر گھر لاتی ہے کہ یہ تحفہ اس کی سہیلی نے دیا ہے، تو آپ سمجھ لیں کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ لیکن ماؤں کو ڈرامے دیکھنے اور موبائل پر سارا دن غیر ضروری باتیں کرنے سے فرصت ہو تو وہ جوان اولاد کی خبر لیں۔
(جاری ہے)