لاہور؛ آوارہ کتوں کو مارنے کیخلاف سول سوسائٹی کا احتجاج اور واک

مظاہرین نے کتوں کو مارنے کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا


آصف محمود March 18, 2025

لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں آوارہ کتوں کو بے رحمانہ طریقے سے مارے جانے کے خلاف سول سوسائٹی سڑکوں پر نکل آئی۔

مال روڈ پر جانوروں کے حقوق کی تنظیموں، کارکنوں، وکلا، اور طلبہ نے پرامن احتجاج کیا اور ریلی نکالی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ آوارہ کتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور ان کے خلاف جاری غیر انسانی کارروائیوں کو فوری طور پر روکا جائے۔

یہ احتجاج پاکستان اینیمل رائٹس ایڈوکیسی گروپ (پاراگ) کے زیر اہتمام منعقد ہوا، جس میں شہریوں، جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں، یونیورسٹی کے طلبہ، وکلا، اور سول سوسائٹی کے کارکنان نے شرکت کی۔

احتجاج کا مقصد حکومت کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کرنا اور عالمی سطح پر رائج "ٹی این وی آر" پالیسی یعنی "پکڑو، نس بندی کرو، ویکسین لگاؤ اور چھوڑ دو" پر عمل درآمد کروانا تھا، تاکہ شہریوں کی حفاظت بھی ممکن ہو اور بے زبان جانوروں کو غیر ضروری اذیت سے بھی بچایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: جانوروں کے حقوق کیلیے سرگرم ادارے کا آوارہ کتوں کو مارنے کی غیر قانونی مہم روکنے کا مطالبہ

احتجاج کا آغاز لاہور ہائی کورٹ چوک سے ہوا، جہاں مظاہرین نے پرامن انداز میں نعرے لگاتے ہوئے ٹاؤن ہال تک مارچ کیا۔ ٹاؤن ہال پہنچنے پر، مظاہرین نے متعلقہ حکام سے ملاقات کی کوشش کی، لیکن چیف میونسپل آفیسر کی غیر موجودگی کے باعث انہیں سی ای او سے بات کرنی پڑی۔

ابتدا میں سی ای او کا رویہ سخت تھا، مگر جب کارکنان نے انہیں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے اور دیگر قانونی دستاویزات دکھائیں، تو انہوں نے معاملے کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا۔ مظاہرین نے افسر کو یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالت کے احکامات کی تفصیلات فراہم کریں گے، جس کے بعد حکام نے اس معاملے پر مزید غور کرنے کا عندیہ دیا۔

احتجاج میں وہ شہری بھی شامل تھے جن کے پالتو یا آوارہ کتوں کو حالیہ کارروائیوں میں ہلاک کیا گیا تھا۔ ان کی جذباتی کیفیت دیکھ کر حکام نے ٹاؤن ہال میں اضافی پولیس نفری تعینات کر دی، تاہم مظاہرین نے واضح کیا کہ ان کا احتجاج مکمل طور پر پرامن ہے اور وہ صرف اپنے مطالبات پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

بعد ازاں، مظاہرین ڈپٹی کمشنر آفس پہنچے، جہاں پہلے انہیں محدود تعداد میں داخل ہونے دیا جا رہا تھا، مگر بعد میں حکام نے تمام وفد کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔

ڈپٹی کمشنر نے مظاہرین کے مؤقف کو بغور سنا اور اعتراف کیا کہ وہ اس مسئلے کی شدت سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے۔ اس موقع پر، مظاہرین نے ٹی این وی آر پالیسی پر عمل درآمد کی تجویز دی اور اس مسئلے کے طویل مدتی حل کے لیے مشاورت کی پیشکش کی۔

ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ وہ فوری طور پر میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور کو ہدایات جاری کریں گے کہ آوارہ کتوں کے قتل کو روکا جائے اور اس حوالے سے مزید مشاورت کی جائے۔

مظاہرین نے ادارہ برائے انسداد بے رحمی حیوانات (ایس پی سی اے) کے دفتر جانے کی بھی کوشش کی، تاکہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کا مطالبہ کر سکیں۔ تاہم، یونیورسٹی حکام نے دروازے بند کر دیے اور وفد کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس موقع پر ایس پی سی اے کے ایک انسپکٹر نے باہر آ کر مظاہرین کی درخواست وصول کی اور یقین دہانی کرائی کہ ان کے مطالبات متعلقہ حکام تک پہنچائے جائیں گے۔

پاراگ کی چیئرپرسن عائزہ حیدر نے اس موقع پر کہا کہ آوارہ کتوں کو غیر ضروری طور پر مارنے کے بجائے جدید اور انسانی بنیادوں پر مبنی حل اختیار کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ بھی حکومت کو یہی حکمت عملی اپنانے کا پابند بناتا ہے، اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر مکمل عمل درآمد کرے۔

ایڈووکیٹ التمش سعید نے بھی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو آوارہ کتوں کی بے دریغ ہلاکت کے بجائے انسانی بنیادوں پر مبنی حکمت عملی اپنانی چاہیے، جو کہ نہ صرف عدالتی احکامات کے مطابق ہے بلکہ اسلامی تعلیمات اور انسانی اقدار کا بھی تقاضا ہے۔

احتجاج میں بڑی تعداد میں طلبہ، خواتین، وکلا، اور سماجی کارکنوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر درست معلومات پھیلانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، تاکہ جھوٹی خبروں کی حوصلہ شکنی ہو اور اس مسئلے کو صحیح تناظر میں اجاگر کیا جا سکے۔

اس موقع پرآمنہ خواجہ، سارہ گنڈا پور سمیت دیگر سماجی کارکنان نے بھی خطاب کیا اور اس احتجاج کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آوارہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اس مسئلے کے حل کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہیں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں