پاک بھارت تعلقات

دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں سے ڈیڈ لاک ہے اور دو طرفہ بات چیت کے دروازے بھی بند ہیں


سلمان عابد May 06, 2025

پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری اور ایک دوسرے کے درمیان اعتماد سازی کے ماحول کا پیدا ہونا ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ تعلقات کی بہتری کے بغیر دونوں ممالک کی سیاست،معیشت اور سیکیورٹی سے جڑے مسائل کا حل بھی ممکن نہیں اور نہ ہی باہمی ٹکراو کا خاتمہ ممکن ہے۔لیکن یہ کام موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کے لیے ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہی اس کے بڑے امکانات دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔کیونکہ تعلقات کی بہتری کا بنیادی نقطہ دو طرفہ بات چیت کے بغیر ممکن نہیںہوسکتا۔

دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں سے ڈیڈ لاک ہے اور دو طرفہ بات چیت کے دروازے بھی بند ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں سفارتی بداعتمادی کا عمل ایک دوسرے کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب دوممالک بالخصوص بھارت کا طرزعمل کسی بھی طور پر بات چیت کے لیے تیارنہیں تو ایسے میں مسائل کا حل سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر کیسے ممکن ہوسکے گا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں بھی دوستی یاتعلقات کی بہتری کے امکانات محدود ہیں اور یہ عمل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان دونوں ممالک کے درمیان بڑے ممالک ثالثی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کسی بھی ملک کی ثالثی کے لیے تیارہے لیکن بھارت کسی بڑی طاقت کی ثالثی کے لیے تیار نہیں ۔

کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ اگر امریکا سمیت کوئی بھی ملک پاک بھارت تعلقات سمیت کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کے لیے آگے بڑھے گا تو اس سے بھارت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا ۔اس حکمت عملی سے پاکستان کو عالمی سطح پرزیادہ فائدہ ہوسکتا ہے ۔اگر بھارت کو پاکستان کے ساتھ بہت سے مسائل پر تحفظات ہیں تو اس بات کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ بہت سے معاملات پر تحفظات ہیں۔اس لیے اگر دونوں ممالک کو آگے بڑھنا ہے تو ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرکے ہی بہتری کا راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ کام سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ۔بہتر ہوتا کہ دونوں ممالک پاکستان اور بھارت مل کر اپنے مسائل کا حل خود بات چیت کی مدد سے ہی تلاش کرتے۔پاکستان نے تواتر کے ساتھ بھارت کو بات چیت کی دعوت دی اور ہمیشہ دو طرفہ بات چیت کے ڈیڈ لاک کو توڑنے پر زور دیا مگر بھارت کی مسلسل انکاری نے بات چیت کے دروازے بند کر رکھے ہوئے ہیں۔ایسے میں اگر بھارت و پاکستان کے درمیان تعلقات میں کوئی بہتری کا امکان پیدا ہوگا تو وہ عالمی مداخلت اور ثالثی کے بغیر ممکن نہیں۔

حالیہ پاکستان اور بھارت میں جو کشیدگی کا ماحول ہے یا جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو ایسے میں بڑی طاقتوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کریں۔اچھی بات یہ ہے کہ اس حالیہ کشیدگی میں امریکا،سعودی عرب، قطر، ترکی اور چین نے ابتدائی طور پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ بات چیت کی اور دونوں ممالک کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ دونوں ممالک سیاسی مہم جوئی اور ایڈونچرز سے گریز کریں اور معاملات کو بند گلی تک نہ لے کرجائیںاور خرابیوں کے حل میں سیاسی حل تلاش کیا جائے۔

بھارت کو اگر موجودہ صورتحال میں جنگی جنون سے روکا جاسکتا ہے تو یہ کام عالمی طاقتوں کے دباؤکی بنیاد پر ہی ممکن ہوگا اور بھارت پر بڑا عالمی دباؤ اس کو بڑی جارحیت سے روک سکے گا۔ عالمی اداروں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کون سا ملک مذاکرات سے مسلسل انکاری ہے اور کیونکر بھارت بات چیت کے ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لیے تیار نہیں۔عالمی قوتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ محض دو ممالک تک محدود نہیں بلکہ خطہ کی مجموعی صورتحال پر ان دو ممالک کے درمیان تعلقات کی خرابی کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔

بالخصوص دہشت گردی دونوں ممالک کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کا حل مشترکہ میکنزم کو اختیار کرکے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔مسئلہ کا حل یہ نہیں کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے پہلے سے خراب تعلقات میں اور زیادہ خرابی پیدا کی جائے اور یہ کہنا کہ ریاستیں دہشت گردی میں براہ راست ملوث ہیںاس سے تعلقات اور خراب ہورہے ہیں۔

بھارت کو بھی یہ سمجھناہوگا کہ اس نے پہلگام واقعہ کے بعد جس طرح سے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اس میں اس کو کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔تمام بڑے ممالک نے ایک متوازن پالیسی اختیار کی اور دونوں ممالک کی براہ راست حمایت کے بجائے ایک دوسرے کو بات چیت کرنے اور مسائل کے حل کا مشورہ دیا ہے۔امریکا جو بھارت کا ایک بڑا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے ، اور بھارت کو اپنی بڑی طاقت سمجھتا ہے لیکن اس نے بھی بھارتی موقف کو قبول کرنے کے بجائے لچک کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔چین کی پالیسی میں بھی توازن نظر آتا ہے اور کسی نے بھی براہ راست بھارت کا پاکستان مخالف بیانیہ قبول نہیں کیا، جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے الزامات میں کوئی بڑی صداقت نہیں ۔

مقبول خبریں