دیکھو میاں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اقتدارکے ماہ پرش جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ ہمارے نزدیک تو یہ سرمایہ داروں کے منافع سمیٹنے کے چونچلے ہیں، ہم تو سمجھتے ہیں کہ دونوں اطراف کے عوام کی اکثریت امن کے شیدائی لوگوں کی ہے اور وہ ہرکام مل جل کر محبت پیار اور امن سے انجام دینا چاہتے ہیں اور یہی ہمارا نکتہ نظر ہے کہ کھانے پینے میں بھی اتحاد، سکون اور امن کا ہونا بہت ضروری ہے، اب آپ کو ہمارے امن سے کھانے پینے پر بھی اعتراض ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔
یہ ہمارے سب ساتھیوں کا مشترکہ مشن ہے کہ جب تک ہم کسی دسترخوان سے کھانے پینے اور ڈکار آنے تک پیٹ بھرنے کی اچھی طرح یقین دہانی نہیں کرلیتے، ہم اس وقت تک دستر خوان چھوڑتے نہیں،کیونکہ ہم سے زیادہ بھلا دستر خوان کی حرمت و عزت اور اس کی قدرکوکوئی کیا جانے۔
ہمارے ساتھیوں کے اس پر امن طرز عمل پر بھی یار لوگوں کو اعتراض ہے تو ہم بھی سب سے لاتعلق ہوکر بے خبر بن جاتے ہیں کہ ہمارے طرز عمل پر محفل کیا سوچ رہی ہے اور کیا کررہی ہے کیونکہ ہم اپنے کھانے پینے کا کام نہایت ایمانداری سے سر انجام دیتے ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ عارف شاہ ہماری پرامن کاوش پر کیا رائے رکھتے ہیں یا بھائی نیر ہمارے خلاف کیا پروپیگنڈا کرتے ہیں یا ناصر ہماری صفوں پر کس طرح کی جاسوسی کرتا ہے اور تو اور ہمیں قطعی امید نہ تھی کہ ادبی خانوادہ ابوذر بھی ان شرپسندوں کا حامی کار بن جائے گا یا کہ اس محفل میں کون کون ہم پر عقاب مانند نظریں گاڑے بیٹھا ہے۔
اس تمام سے ہمارا نہ تعلق ہے اور نہ ہمیں اس سے سروکار کہ ہمارے متعلق کون کیا سوچتا ہے یا کیا رائے رکھتا ہے؟ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔البتہ ہمارے خلاف جب ایک دوست نے الٹا سیدھا پروپیگنڈا کرنا شروع کیا تو ہم نے بھی ’’گروپ‘‘ کا اجلاس بلا کر رد عمل کے طور پر اس کا نام بدل دیا، اب ہم نہیں جانتے کہ اس کا کتنا تعلق پنجاب سے ہے یا نہیں البتہ اسی نیر پنجابی نے ہمیں پوری برادری میں ’’نیازی گروپ‘‘ کے نام سے ایسا بدنام کیا ہے کہ برادری کا بچہ بچہ کمبخت ہمیں نیازی گروپ سے جانتا ہے اور ہمارے گروپ کے ہر فرد پر نظر رکھتا ہے۔
اب آپ خود انصاف کیجیے کہ ہمارے ساتھیوں کوکھانے کی کھوجنا کرنے ایسے محنت طلب کام کے بعد اتنی فرصت قطعی نہیں ہوتی کہ ہم بے تکے لوگوں کی فضول باتوں کی پرواہ کرتے پھریں۔ آپ خود سوچیے کہ کھوجنا کرنے کا ماحول اور تعمیری سوچ ویسے ہی سماج سے رخصت ہوتی چلی جا رہی ہے تو ایسے میں کھوجنا کے جان جوکھوں والا کام ہم سب ساتھی کر رہے ہیں اور واٹس ایپ کے تحت آپس میں جڑے ہوئے ہیں توکیا یہ ہمارا اس سماج پر احسان نہیں؟
سوچیے جو سماج بغیر تحقیق اور بن کھوجنا کے ’’فیک نیوز‘‘ چلا رہا ہے اور ساری نسل بے وقوفوں کی طرح جاگ کر موبائل کی دنیا میں گھس کر اپنا وقت اور صحت خراب کر رہی ہے توکیا یہ اچھا سماجی یا فطری عمل ہے جب کہ سماج میں اکثریت ان فیک نیوز لوگوں کے اس جھوٹ و فریب اور انتشار پسند خبر پر لوگ فوری طور پر ایمان لے آتی ہے، تو یہ کوئی صحت مند بات تو ہرگز نہیں۔
دوسری جانب اب اگر ہمارا گروپ اتحاد اور امن سے صحت مند رہنے کی غرض سے دستر خوان اور رزق کی عزت افزائی کررہا ہے تو یار لوگوں کو نجانے کیوں اعتراض ہے۔قصہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے اس امن پسند اور صحت مند روایات کے گروپ کی ابتدا چیئرمین پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں پڑی تو یار لوگوں نے پہلے تو ہم پر ٹائیگر بننے کا الزام عائد کیا اور جب اس سے بھی کام نہ چلا تو ہمارے گروپ ہی کو نیازی گروپ پکارنے لگے، اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی کے کھانے کے طور طریقے یار لوگوں کو پسند نہیں تو اس میں ہمارے پرامن صحت مند رہنے والے دوستوں کا کیا قصور؟
مانا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے متعلق یہ مشہورکیا گیا کہ وہ اپنی جیب سے کھانے پینے کے بجائے دوسروں کے دسترخوان پرکھانے کو پسند کرتے ہیں۔ اب بتائیے کہ اگر کوئی چیئرمین پی ٹی آئی کو ہینڈسم سمجھ کرکھانے پر بلا رہا ہے تو اس میں بیچارے چیئرمین پی ٹی آئی کا کیا قصور … یہ بات ٹھیک ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی ایک معروف شخصیت ہیں سو انھیں لوگ کھانے پر مدعو کر لیتے ہیں۔
اب ہم ٹھہرے شریف اور متوسط طبقے کے افراد جس میں سے کوئی بھی فرد مشہور و معروف نہیں ہے، سو ہمارا گروپ اگر اپنی تحقیق کی بنا پر مرنے سے لے کر سوئم اور چالیسویں کے کھانے کی خبر رکھتا ہے یا کسی بھی کھانے کی تقریب کی خبر ہم رکھتے ہیں تو اس میں حرج یا پروپیگنڈا گروپ کو اعتراض کیا ہے؟دیکھیے صاحب۔ اب اس میں کسی کو برا لگے یا بھلا، ہم تو اپنے چیئرمین پی ٹی آئی کے بہت ممنون و مشکور ہیں کہ انھوں نے عوام کی بھوک و پیاس ختم کرنے کے لیے دوسروں کے پیسوں سے ’’لنگر خانے‘‘ کھولے اور انھی کے دور میں عوام کی آزادی سے زیادہ ہمارے چیئرمین پی ٹی آئی کو جانوروں کی آزادی کی فکر لاحق رہتی تھی، تبھی تو انھوں نے وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہوتے ہی تمام کٹے اور بھینسوں کو آزاد کرنے کی مہم چلا کر سارے جانوروں کو نیلام کر کے آزادی دلوائی۔
اب آپ ’’شیرو‘‘ کی آزادی کو ہی دیکھ لیجیے کہ شیرو ہمارے چیئرمین پی ٹی آئی کا کتنا وفادار اور آزادی پسند تھا کہ ایک مرتبہ چند قبائیلیوں نے چیئرمین پی ٹی آئی سے اپنے مسائل پر بات چیت کے لیے وقت لیا تو ہمارے چیئرمین پی ٹی آئی نیازی نے انتہائی سخاوت سے انھیں کہا کہ’’آپ صبح ناشتے پر آجائیں‘‘ اب جیسے ہی یہ قبائلی عمائدین وہاں پہنچے تو ایک بڑے پیالے میں چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے دلیہ لایا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی وہ دلیہ تناول کرنے لگے جب کہ عمائدین اپنے ناشتے کا انتظارکرنے لگے۔
اتنی دیر میں شیروکمرے میں داخل ہوا اور اچھل اچھل کر عمائدین کے پاس جاتا رہا جب کہ ہمارے چیئرمین پی ٹی آئی، شان بے نیازی سے دلیہ کھاتے رہے، اسی اثنا میں شیرو نے وفاداری کی ایسی دھماچوکڑی مچائی کہ عمائدین نے آخرکار بغیر ناشتے ہی اجازت لینے میں اپنی خیریت چاہی۔
اب اس واقعے کی روح کو سمجھتے ہوئے ہی ہمارا گروپ کسی بھی سوئم، چہلم یا برسی کی تقریب میں بغیرکسی کی پرواہ کیے بنا خوب سیر ہوکر کھانے پر توجہ دیتے ہیں اور پر امن طور سے محفل سے رخصت ہوجاتے ہیں، اب بتائیں کہ ہمارے اس پرامن عمل اورکھوجنائی عمل کو ’’نیر پنجابی‘‘ نے اس قدر دریدہ کردیا ہے کہ اب ہمارے گروپ کے تحفظ اور بقا کا مسئلہ بن گیا ہے، ہم اب بھی پر امید ہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی، اڈیالہ سے بحفاظت واپس آکر ہماری داد رسی کریں گے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کوئی نہ کوئی قانونی کارروائی ضرورکریں گے، پتہ نہیں کیوں ہمارے خلاف مہم چلانے والے نہیں سمجھتے کہ ’’رزق نصیب کا ہوتا ہے اور ایک ایک دانے پرکھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے‘‘ جو نہیں کھا پاتے وہ بدنصیب ہی تو ہوتے ہیں۔