جنگ اور مستحکم پاکستان

ہم سرد جنگ میں امریکاکی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے رہے۔ امریکا نے یہاں آمریتوں کو پروان چڑھایا


جاوید قاضی May 11, 2025
[email protected]

ایک نئے موڑ پرآکر رکے ہیں ہم ! دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہندوستان کا ہم پر جنگ مسلط کرنا اسی تبدیلی کا ایک پہلو ہے۔ اس وقت ہندوستان، امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور امریکا بھی وہ نہ رہا جو آج سے تین ماہ قبل تھا۔ ہر طرف جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں اور دنیا نئی صف بندی کی طرف راغب ہے۔ اس نئی صفِ بندی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اس کا علم ہمیں بھی نہیں، لیکن ہم توازن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور چین کے ساتھ برابری کے تعلقات کے خواہاں ہیں، مگر امریکا کا طرزِ عمل ایسا نہیں۔ امریکا اور چین کے مابین سرد جنگ نے ہمیں شدیدکوفت میں مبتلا کردیا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر ہے، ہندوستان سے ہمارے دیرینہ تنازعات ہیں، ہم نے خطے میں جن ممالک سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، ہم نے شرائط یہی عائد کیں کہ اس خطے میں وہ ہمارے ہندوستان کے ساتھ تنازعات کو سمجھے۔ جیسا کہ چین اور روس کے آپس میں تعلقات تھے اور اب امریکا، روس کے ساتھ تعلقات بڑھاتے ہوئے، روس اور چین کے مابین تعلقات کو خراب کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکا، چین اور روس کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے، یوکرین کو یورپین یونین اور نیٹو سے دور رکھتے ہوئے بلی کا بکرا بنا رہا ہے۔ اس پس منظر میں یورپین یونین بذات خود تنہا کھڑی ہے۔ امریکا سے ان کے تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہیں۔

دنیا کے اس منظرنامے میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کو انتہائی معاشی مسائل درپیش ہیں، دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اس ملک کو معاشی اعتبار سے جس اندھے کنویں میں دھکیلا تھا، ہم اس صورتحال سے ضرور نکل آئے ہیں مگر معاملہ اب بھی بہت حساس ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اس جنگ کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے ، لیکن اگر یہی جنگ اگلے دو ہفتے تک خدا نخواستہ جاری رہتی ہے تو جو معاشی استحکام ہم نے بڑی مشکل سے پایا تھا وہ ریزہ ریزہ ہوجائے گا، اگر ہماری معیشت دوبارہ کمزور ہوتی ہے تو ہم خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔

ہم سرد جنگ میں امریکاکی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے رہے۔ امریکا نے یہاں آمریتوں کو پروان چڑھایا۔ جنرل ضیاالحق افغانستان میں، سوویت یونین کی مداخلت میں پارٹنر رہا۔ پھر یہ توازن ٹوٹا یہاں جمہوری قوتیں کمزور ہوئیں۔ آمریتوں نے مذہب کو جمہوریت کے خلاف استعمال کیا۔ دائیں بازوکی سوچ نے کشمیر پالیسی کو داخلی طور پر اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے خوب استعمال کیا۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی اسی بیانیہ کو آگے لے کر چلے۔ پھر بے نظیر نے اس بیانیہ سے لاتعلقی اختیارکی،کیونکہ اس وقت تک سرد جنگ کا خاتمہ ہوچکا تھا۔

دنیا میں ان تمام چیلنجزکا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے اور ایسی سیاسی قوتیں جنم لیتی ہیں۔ ایک مضبوط سیاسی نظام سے، شفاف اور غیرجانبدارانہ انتخابات سے، مضبوط وفاقی ڈھانچے اور آزاد عدلیہ سے اور پاکستان میں ان تمام لوازمات کی کمی شدت سے رہی ہے۔ اس وقت بڑے بڑے سیاسی فیصلے ہورہے ہیں۔ یہ تمام فیصلے موجودہ دورکے وزیراعظم، صدر اور بلاول بھٹوکے تعاون سے کیے جا رہے ہیں۔ ہمیں ان حقیقتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ دشمن بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات جیسا کہ جعفر ایکسپریس کا واقعہ اس بات کے عکاس ہیں۔ بلوچستان اور نہ ہی سندھ کو وڈیروں کی ایماء پر چھوڑا جاسکتا ہے، ایسا کرنے سے ہمارا دشمن اس بات کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ اس بدلتے منظر نامے کو ہمیں تیزی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو چلانا سیاستدانوں کا کام ہے نہ کہ آمروں کا ! وہ چاہے پھر جنرل ضیاالحق ہو، پرویز مشرف ہو یا پھر ہائبرڈ جمہوریت کی صورت ہو۔ اگر سندھ اور بلوچستان کے صوبوں کو ایسے غیرمقبول لیڈروں کے حوالے کیا گیا، تو یہ لوگ ہماری ساخت اور سالمیت کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ ہم پر ہندوستان نے جنگ مسلط کی ہے۔ یہ ہندوستان کی طرف سے ہم پر جارحیت کا قدم تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان اتنی بڑی طاقت نہیں رہا کہ ہم ہندوستان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ ہم ایک ایٹمی طاقت ضرور ہیں مگر اس کا استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے سے ہمارا دشمن ہم سے دور رہے گا مگر اس سے آگے ہم جا بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کا مضبوط ہونا،آئین پر چلنا جمہوری پاکستان، معاشی طور پر مضبوط پاکستان اور مضبوط وفاق کا وجود دشمن کو ہم سے دور رکھے گا۔

یہ سال بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے ایک مشکل سال ہے۔ امریکا میں سیاسی اعتبار سے جو تبدیلی اس وقت آئی ہے، ان کی نظریاتی سوچ MAGA (Make America Greater Again) ہے اور وہ اس دنیا کو ایک نئے انداز اور نئے نظریے سے دیکھ رہے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس جن کی بیوی ہندوستانی ہیں، حال ہی میں انھوں نے یہ کہا کہ ’’ ہندوستان کو پاکستان کی طرف سے اس بات کی اجازت ملنی چاہیے کہ وہ پاکستان میں ان مخصوص اہداف کو نشانہ بنائے جہاں دہشت گرد پناہ لیے ہوئے ہیں‘‘ مگر وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان خود اس محاذ پر سالوں سے لڑ رہا ہے اور اس وقت بھی پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہے جس میں براہِ راست ہندوستان ملوث ہے۔

امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس کا ایک اور بیان سامنے آیا ہے ’’ ہم ہندوستان اور پاکستان کے مابین ثالثی کرنے کے خواہاں نہیں ہیں، البتہ ہم ایسا چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک جنگ کو آگے نہ لے کرجائیں۔‘‘ پاکستان کو اس وقت ثالثی کی ضرورت ہے لیکن امریکا اس پیج پر نہیں۔ پاکستان کو چین کی ٹیکنالوجی کی برتری نے محفوظ رکھا اور حکمتِ عملی کے تناظر میں ہمارے لیے یہ بہتر بھی رہا۔ یقینا جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے، وہ تمام بیانیہ، وہ تمام سوچیں اور رویے جو آج تک ہم لے کر چلے ہیں، ان پر نظرثانی کی ضرورت ہے، یہ ملک خدا کی نعمت ہے۔ اسے مستحکم بنانے کی ضرورت ہے۔ صرف یہ سوچنا کہ ہمارے پاس deterrence ہے تو یہ ہماری کلاسیکل اور مانع سوچ ہے۔ سوویت یونین کے پاس بھی سیکڑوں نیوکلیئر بم اور ایٹمی ہتھیار تھے۔ نظریاتی ریاستیں اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ضرورت ہے، اب زمینی حقائق کو سمجھنے کی۔

 ہندوستان نے ہم پر جنگ مسلط کی ہے۔ اس جنگ میں امریکا اور اسرائیل ان کے اتحادی ہیں۔ ماضی میں امریکا نے بہ حیثیت فرنٹ لائن اسٹیٹ پاکستان کو استعمال کیا اور اب نئے بین الاقوامی منظر نامے میں ہندوستان کی صورت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ہمیں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ تو بے شک جنگ ہی ہے مگر وہ اس طرح سے مثبت رہی کہ یہ جنگ ہماری قوم کے لیے بیداری کا باعث ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں