ماہِ ذی الحجہ کے فضائل و احکام

ماہِ ذی الحجہ ان چار برکت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیے ہیں



ماہِ ذی الحجہ اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ہے۔ یہ مہینہ نہایت خیرو برکت ، عظمت اور حرمت والا ہے۔ اس مہینے کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس میں حج کیا جاتا ہے۔ اس مہینہ کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے پہلے عشرہ کا نام قرآنِ مجید میں ’’ایام معلومات‘‘ رکھا گیا ہے۔

اس مہینے کے پہلے عشرے کی فضیلت متعدد احادیث مبارکہ میں بیان کی گئی ہیں۔ اس مبارک مہینہ کی نسبت حج بیت اللہ اور قربانی سے ہے۔ اس کی مقررہ تاریخوں کے علاوہ کسی بھی مہینے قربانی یا حج ادا نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مہینہ تاریخی اعتبار سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے کی پہلی تاریخ کو خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا ء رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ اس مہینے کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہا جاتا ہے کیوںکہ حجاج کرام اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے تاکہ عرفہ کے دن تک ان کو پیاس نہ لگے۔

اس یوم کو ترویہ (یعنی سوچ بچار) کہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کریں۔ آپ علیہ السلام نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے۔ اس غور وفکر کرنے کی وجہ سے اس دن کو یوم ترویہ کہا جاتاہے۔

اس مہینے کی نویں تاریخ کو ’’ یومِ عرفہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب نویں ذی الحجہ کو بھی خواب دیکھا جس میں ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دیا جارہا ہے تو آپ علیہ السلام نے پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہے۔ اس دن کو عرفہ کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حجا ج کرام حج کا رکنِ اعظم ’’وقوفِ عرفہ ‘‘ اسی دن کرتے ہیں۔ اس مہینے کی دسویں تاریخ کو ’’یومِ نحر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی روز حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اور اسی دن کی یاد میں مسلمان جانوروں کی قربانیاں کرتے ہیں۔ اس مہینہ کے گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں دن کو ’’ایام تشریق‘‘ کہا جاتا ہے۔ (فضائل الایام والشہور)

ماہِ ذی الحجہ ان چار برکت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیے ہیں۔ اس مہینے کی فضیلت کا عالم یہ ہے کہ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس کے پہلے عشرہ کی راتوں کی قسم قرآن مجید میں بیان فرمائی ہے جو کہ اس کی عظمت و شرف کی دلیل ہے۔ چناںچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ:’’قسم ہے فجر کی ۔ اور دس راتوں کی۔ اور جفت اور طاق کی ‘‘۔ (سورۃ الفجر: ۱۔۳)۔ اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دس راتوں سے مراد قربانی کے مہینے کی دس راتیں ہیں، طاق سے مراد عرفہ کا دن ہے اور جفت سے مراد نحر (یعنی دس ذوالحجہ) کا دن ہے۔ (شعب الایمان: ۳۴۶۸) ۔ مفسر قرآن حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جن دس راتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے‘ اس سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں اور جفت سے مراد قربانی کا دن ہے اور طاق سے مراد یوم عرفہ ہے۔ ( شعب الایمان)۔

متعدد احادیث مبارکہ میں اس مہینے کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کے دس دنوں میں خدا کو نیک عمل جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوں میں نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں)؟ فرمایا: نہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا)۔ (بخاری : ۹۶۹)۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عشرۂ ذی الحجہ میں اعمالِ صالحہ بجا لانے والا اس مجاہد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اجر و فضیلت کا مستحق ہے جو اپنے مال و جان کے ساتھ بخیریت میدانِ جنگ سے واپس آ جاتا ہے۔

شارح بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عشرہ ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات نماز، روزہ، صدقہ اور حج اکٹھا ہوجاتی ہیں، اس کے علاوہ کسی اور عشرے میں نہیں آتیں۔ (فتح الباری)۔ اس مہینے میں عبادت کا ثواب بڑھادیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک روزہ پورے سال کے روزوں کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کے روزوں اور اس کی راتوں میں قیام کی فضیلت کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذوالحجۃ کے دس دنوں سے زیادہ کسی اور دن میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند نہیں ہے۔ ان میں سے ہر دن میں روزہ رکھنا ایک سال کے روزوں کے برابر ہے او ر اس کی راتوں میں سے ہر رات میں قیام کرنا لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔

(سنن ابن ماجہ : ۱۷۲۸)۔ اس مہینے میں کیے گئے اعمال دیگر مہینوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے دس دنوں میں نیک عمل کرنے سے زیادہ او ر کسی دن میں نیک عمل کرنا اللہ کو محبوب نہیں۔ (بخاری: ۹۶۹) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح رمضان میں خصوصی عبادت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے‘ اسی طرح اس مہینے میں بھی روزوں کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواجِ مطہرات فرمایا کرتی تھیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یومِ عاشورہ کا روزہ ، ذی الحجہ کے نو روزے۔۔۔۔ رکھا کرتے تھے۔ ( سنن نسائی: ۲۳۷۲) ام المؤمنین حضرت ام حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کو کبھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ عاشورہ کا روزہ، ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے روزے، ہر مہینے میں تین دن (یعنی ایام بیض) کے روزے اور نمازِ فجر سے پہلے دو رکعتیں۔ (سنن نسائی: ۲۴۱۶)

اس مبارک مہینے میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوتِ قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات وغیرہ کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دس دنوں میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام ذکر کریں۔ (سورۃ الحج: ۲۸) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کو نیک عمل کرنا جتنا پسند ہے۔ اور جتنا اس کے نزدیک ان دنوں میں نیک عمل افضل ہے اور کسی دن میں نہیں۔

تم ان دنوں میں بہ کثرت لا الہ الااللّٰہ پڑھو اور اللّٰہ اکبر پڑھو کیوں کہ یہ تہلیل تکبیر اور اللہ کے ذکر کے ایام ہیں اور ان ایام میں نیک عمل کا سات سو گنا اجر دیا جاتا ہے۔ ( شعب الایمان) حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دس دنوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی دن زیادہ عظیم اور زیادہ محبوب نہیں ہے، لہٰذا تم ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ لا الہ الااللّٰہ ، اللّٰہ اکبر اور الحمد للّٰہ پڑھو۔ (مسند احمد : ۵۴۴۶)

ذی الحجہ کا مہینہ داخل ہوتے ہی قربانی کا ارادہ کرنے والوں کو ناخن اور بال کاٹنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عشرۂ (ذی الحجہ) داخل ہوجائے اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ ایک روایت میں فرمایا کہ نہ بال کٹوائے نہ ناخن کٹوائے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہوتو وہ نہ بال منڈوائے نہ ناخن ترشوائے۔ ( مسلم: ۱۹۷۷)۔ یہ حکم واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی سے پہلے بھی ناخن کاٹ لے یا بال ترشوالے تو اس سے قربانی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن یاد رہے کہ حدیث مبارکہ پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اجرو ثواب پانے کی سعادت حاصل ہوسکے۔

الغرض ذی الحجہ کا مہینہ اللہ رب العزت کی خصوصی عنایت و شفقت کا باعث ہے ۔ خاص طور پر اس مہینے کے پہلے عشرے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نظر کرم فرماکر عبادت کا ثواب کئی گنا زیادہ کردیتا ہے۔ لہٰذا ان بابرکت لمحات میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کے مطابق اس مہینے میں اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مقبول خبریں