میزبان: اجمل ستار ملک
(ایڈیٹر فورم)
رپورٹ: احسن کامرے5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر ماحول کو محفوظ بنانے پر زور دینا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
راجہ جہانگیر انور
(سیکرٹری انوائرمنٹ پروٹیکشن
اینڈ کلائمیٹ چینج ڈیپارٹمنٹ، پنجاب)
پلاسٹ برا نہیں، اس کے استعمال میں خرابی ہے۔ پاکستان 4ارب ڈالر کا دانہ امپورٹ کرتا ہے لیکن ہم یہاں پلاسٹ کو ری سائیکل نہیں کرتے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر ہمارے ہاں پلاسٹک کی صورتحال یہی رہی تو 2050ء تک دریائے سندھ میں مچھلی کے بجائے صرف پلاسٹک ہوگا جو تشویشناک ہے۔ شوکت خاتم کی رپورٹ کے مطابق کینسر کی ایک بڑی وجہ پلاسٹک ہے۔ پلاسٹک بہت ساری چیزوں کا متبادل ہے،ا س کی وجہ سے درختوں کی کٹائی میں بھی کمی آئی ہے لیکن اس کا غیر ذمہ دارانہ استعمال مسائل پیدا کر رہا ہے۔ غیر معیاری اور ایک مرتبہ استعمال ہونے والا پلاسٹک بیگ مسئلہ ہے۔ ہم نے پلاسٹ بیگ مینوفیکچرز کے ساتھ میٹنگ کی، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے انجینئرز کی مدد سے ان کی مشینری کو اپ گریڈ کیا اور انہیں پابند کیا کہ 75 مائیکرون سے کم موٹائی کا پلاسٹ بیگ تیار نہیں کریں گے۔ ہم نے ان کی رجسٹریشن کو آن لائن کر دیا، اب رجسٹریشن فیس کے حوالے سے اعتراض آیا ہے لہٰذا اسے عوامی مفاد میں مفت کرنے جا رہے ہیں، اس کے بعد کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہسپتالوں کے ویسٹ میٹریل سے پلاسٹک بیگ بنا دیے جاتے ہیں جو بیماریوں کا سبب ہے، ہم ان کی ٹریسنگ کر رہے ہیں، کسی کو عوامی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی پلاسٹک بوتلوں کا 10 فیصد ری سائیکل کیا ہے۔ اس وقت سنگل یوز پلاسٹک بڑا مسئلہ ہے، آئندہ 3 برسوں میں اس میں 30 فیصد کمی لائی جائے گی۔ ہمارا ملک تیزی سے اربنائزیشن کی طرف گیا، ہم نے درختوں کا بے دریغ کٹاؤ کیا اور ماحول تباہ کر دیا۔ لاہور شہر میں 36 فیصد ہریالی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ صرف 3.6 فیصد ہے۔ کنسٹرکشن کی وجہ سے بھی ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ لاہور میں روزانہ 450 ٹرالی ریت داخل ہوتی ہے جو لاہور کی سڑکوں پر تقریباََ 45 ٹن ریت گراتی ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کا دھواں بھی ماحول کو آلودہ کر رہا ہے۔ لاہور میں 52 لاکھ موٹر سائیکل جبکہ 13 لاکھ گاڑیاں ہیں۔ ان میں فٹنس کے بغیر گاڑیاں بھی ہیں جبکہ ملاوٹ زدہ تیل بھی ماحولیاتی آلودگی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔موجودہ حکومت پہلی مرتبہ پٹرول کا معیار چیک کرنے کا میکنزم بنا رہی ہے، اس کیلئے موبائل وینز تیار کر لی گئی ہیں، جلد پٹرول پمپس پر پٹرول کا معیار چیک کیا جائے گا۔ گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ کے حوالے سے60 پوائنٹس بنائے گئے ہیں، شہریوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی گاڑیوں کی چیکنگ کرانا ہوگی۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی ہر فرد کا مسئلہ ہے، صاف ماحول اور فضا خریدی نہیں جاسکتی لہٰذا ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے اور اپنا اپنا کردار ذمہ داری سے ادا کرنا ہوگا۔ کسان فصلوں کی باقیات جلاتے ہیں، حکومت سپر سیڈرز پر انہیں سبسڈی دے رہی ہے۔ پنجاب کی 13 تحصیلوں میں انڈسٹری بائیو ماس جلا رہی ہے، ہم انہیں کسانوں سے لنک کر رہے ہیں، فصلوں کی باقیات کسانوں سے خرید کر انڈسٹری کودی جائیں گی تاکہ ماحول کو محفوظ بنایا جاسکے۔ اسی طرح بھٹوں کو بھی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے۔ کنسٹرکشن کی وجہ سے بھی ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سختی کے بغیر گزارہ نہیں، اگر لوگوں نے اپنے رویے تبدیل نہ کیے اور مسائل مزید سنگین ہوئے تو پھر سختی کی جائے گی، 3 ماہ کیلئے کنسٹرکشن پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ستھرا پنجاب منصوبے سے صفائی کے نظام میں بہتری آرہی ہے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق حکومتی اقدامات کی وجہ سے پلاسٹک بیگز کے کچڑے میں 77 ٹن کمی آئی ہے۔ ہم نے گرین کریڈٹ پروگرام کا آغاز کیا ہے، اس مد میں الیکٹرک بائیکس، گرے ویسٹ، پلاسٹک ریڈکشن، آگاہی جیسے کاموں کے لیے شہریوں کو اب تک لاکھوں روپے دیے جاچکے ہیں، اس پروگرام کی تفصیلات ہماری ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ لاہور کا کچڑاجمع کیا جاتا ہے۔ لکھوڈیر میں قائم ڈمپنگ سائٹ میں میتھین گیس کی بڑی مقدار پائی گئی ہے، اس حوالے سے کورین کمپنی تحقیق کر رہی ہے، یہاں سے 80 کروڑ سے 1 ارب روپے مالیت کی گیس موجود ہے جو اردگرد کے گھروں کو فراہم کی جائے گی۔
عرفان علی کاٹھیا
(ڈائریکٹر جنرل، پی ڈی ایم اے)
پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور کلائمیٹ پیٹرنز بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ میں درجہ حرارت میں 5سے 7 ڈگری کا فوری اضافہ غیر معمولی ہے،یہ انسانی جسم کے لیے ٹھیک نہیں، پھر ہیٹ ویو آئی، آندھی طوفان آئے جس میں 110 زخمی جبکہ 18 قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ کلین انرجی اور سولرائزیشن ضروری ہے لیکن جہاں مسائل ہیں انہیں دور کرنا ہے۔ آندھی کے دوران سولر پینلز کے سٹرکچرز کی وجہ سے بھی لوگ زخمی ہوئی، کبھی اسے چیک ہی نہیں کیا گیا کہ کس معیار کا کام ہو رہا ہے لہٰذا اب اس پر بھی رگولیٹری فریم ورک بنا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو تحفظ دیا جاسکے۔ ہمارے کلائمیٹ پیٹرنز تبدیل ہو رہے ہیں، اپریل میںا ٓسمانی بجلی گرنے کے 29 کیسز سامنے آئے، گزشتہ ہفتے میانوالی میں آسمانی بجلی گرنے سے 2 اموات ہوئیں۔ ہمیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں پہلے سے کئی زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس میں یہ بات اہم ہے کہ موجودہ حکومت وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر پیشگی اقدامات پر کام کر رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں صرف سیلاب کو ہی آفت سمجھا جاتا تھا لیکن اب ہم سموگ، برفباری، ژالہ باری، ہیٹ ویو، سیلاب و دیگر قدرتی آفات سے تحفظ کیلئے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں لوگوں کے جان ،مال، مویشی وغیرہ کا تحفظ یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ہم پروایکٹیو اپروچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں، پہلی مرتبہ رسک اسیسمنٹ کی جا رہی ہے۔ تمام دریاؤں کے قریب آبادیوں کا مکمل ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ 292 پیرا میٹرز پر مشتمل ڈیتا بیس بنایا جا رہا ہے، اسے سوشل رجسٹری سے لنک کیا گیا ہے، اسے لینڈ ریکارڈ کے ساتھ بھی لنک کیا گیا ہے کہ اگر زمین کی ملکیت تبدیل ہو تو فوری معلوم ہوسکے، یہ ڈیٹا لوکل گورنمنٹ کے ساتھ بھی لنک ہے۔ اس طرح تمام متعلقہ ادارے مل کر اس ڈیٹا بیس کی روشنی میں لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائیں گے۔ ریسکیو اینڈ ریلیف پربھی پلاننگ ہو رہی ہے۔ فلڈ سمولیشن ماڈل پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ارلی وارننگ سسٹم بھی بنایا گیا ہے، رسک والے علاقوں کے افراد کو بذریعہ ایس ایم ایس پیشگی اطلاع دی جاتی ہے، موسمی الرٹ جاری کیا جاتا ہے۔ محکمے کی آؤٹ ریچ بڑھانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر لاہور اور مظفرگڑھ کے بعد اب راجن پور، جھنگ، سرگودھا اور راولپنڈی میں عالمی معیار کے مطابق ویئر ہاؤس بنائے جا رہے ہیں، ان سے کسی بھی آفت کی صورت میں اقدامات میں مدد ملے گی۔ ہم میٹ ، این ڈی ایم اے و دیگر اداروں کے ساتھ تعاون سے کام کرتے ہیں۔ ہم نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنا سسٹم بھی ڈویلپ کیا ہے جس سے ہمیں موسم کے حوالے سے اپ ڈیٹس ملتی ہیں اور اس حوالے سے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔ جون سے ستمبر تک، بارشوں میں200 فیصد اضافہ متوقع ہے جس سے لاہور، قصور، اوکاڑہ، گوجرانوالہ و دیگر شہر متاثر ہوسکتے ہیں۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب میں مون سون کے حوالے سے ابھی سے ہی کام کا آغاز کر دیا گیا ہے، تمام نالوں کی صفائی، سیوریج و دیگر ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
مبارک علی سرور
(سی ای او ،آگاہی)
5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ رواں برس اس کا موضوع پلاسٹک کی حوصلہ شکنی کے حوالے سے ہے ۔ شہری و دیہی علاقوں، دونوں میں ہی پلاسٹک کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ لاہور میں روزانہ 5 ہزار ٹن سالڈ ویسٹ اکٹھا کیا جاتا ہے جس میں پلاسٹک کی ایک بہت بڑی شرح ہوتی ہے۔ یہاں سینی ٹیشن کے مسائل بھی ہیں، صرف 35 فیصد افراد کو سینی ٹیشن کی بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ اس حوالے سے محکمے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی مسائل کا بدترین شکار ہیں۔ ان مسائل میں موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، خشک سالی، برفباری، ژالہ باری، ہیٹ ویو و دیگر شامل ہیں۔ موجودہ حکومت واٹر سینی ٹیشن، انوائرمنٹ اور کلائمیٹ چینج جیسے اہم اور بنیادی مسائل کے حل کیلئے بہترین کام کر رہی ہے۔ سموگ کے حوالے سے بھی پہلی مرتبہ سموگ مٹی گیشن پلان بنایا گیا تھا، اب بہت سارے ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پیشگی کام ہو رہا ہے۔ پی ڈی ایم اے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر ضروری اقدامات کر رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ سول سوسائٹی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اس ضمن میں ادارہ ’’آگاہی‘‘ پاکستان پاورٹی ایلی ویشن فنڈ (PPAF)کی مدد سے پنجاب کے دو سیلاب زدہ اضلاع، قصور اور اوکاڑہ، میں سماجی سہولیات کی بحالی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی استعداد میں اضافہ کا منصوبہ چلا رہا ہے۔ آگاہی نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی دن کی مناسبت سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد بھی کیا۔پنجاب میں پلاسٹک بیگز پر بارہا پابندی لگائی گئی، دیکھنا یہ ہے کہ یہ کتنی کارآمد ثابت ہوئی؟ اس پر عملدرآمد کتنا ہوا؟ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ سمیت بڑے کے نالوں میں بے ہنگم پلاسٹ بیگز نظر آتے ہیں، ان بیگز کے نالوں میں ہونے کی وجہ سے اربن فلڈنگ ہوتی ہے۔ ہمیں پلاسٹک بیگز کے استعمال کو کم سے کم کرنا ہے۔ یہاں اس بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے پلاسٹک بیگز پر پابندی لگنے کے بعد بڑے سٹورز نے بیگ کے پیسے چارج کرنا شروع کر دیے، اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے مجموعی رویے بھی تبدیل کرنے ہیں، ہمیں کپڑے کے تھیلے کا استعمال کرنا ہے تاکہ پلاسٹک بیگز کا استعمال کم کیا جاسکے۔ ہمیں لوگوں کو گراس روٹ لیول پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ پلاسٹک بیگز پر پابندی کے حوالے سے مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔ حکومت اس کی کوشش کررہی ہے لیکن اکیلے اس کا حل نہیں کرسکتی، یہ ہر فرد اور ہر گھر کی صحت کا مسئلہ ہے لہٰذا ہمیں لوگوں کے رویے تبدیل اور ان کی ذہن سازی کرنا ہوگی۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ اسلام آباد میں اچانک سے موسم میں تبدیلی اور ژالہ باری کا ہونا، ملک کے مختلف حصوں میں آندھی، طوفان جیسے معاملات نارمل نہیں ہیں۔ مئی میں درجہ حرارت 46 سے 48 ڈگری رہا ہے، ہیٹ ویو آئی، اب جون، جولائی میں گرمی کی شدت زیادہ ہوگی۔ پہلے فصلوں کی باقیات کو ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجہ سمجھا جاتا تھا مگر گزشتہ برس یہ انکشاف ہوا کہ ہمارے ہاں گاڑیوں کا دھواں اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انوائرمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی نے لاہور میں مختلف مقامات پر سینٹرز قائم کر دیے ہیں جہاں سے گاڑیوں کی فٹنس چیک کرائی جاسکتی ہے۔ ماحول کا تعلق بلا امتیاز ہر شہری سے ہے، جو بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں وہ بھی فضا نہیں خرید سکتے۔ ہر فرد کی صحت کے لیے ماحولیاتی مسائل کو دور کرنا ہوگا، اس میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جاسکیں۔ نصاب میں تبدیلی پر بہت زور دیا جاتا ہے ،میرے نزدیک اب بات اس سے آگے جا چکی ہے، ہمیں ہنگامی اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، اس میں اکیڈیمیا کو اپنا بہترین کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کے بیشتر اقدامات اچھے ہیں، ہمیں انہیں سراہتے ہیں اور سپورٹ بھی کرتے ہیں، جہاں جہاں ہمارا نیٹ ورک موجود ہے، ہم لوگوں کو ان کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔ ہم حکومت کے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کام بھی کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم لوکل گورنمنٹ کے ساتھ مل کر ستھرا پنجاب پروگرام کو سپورٹ کرنے کیلئےWHH کے تعاون سے مانیٹرنگ فریم ورک بنانے پر کام کر رہے ہیں، اس سے یقینا بہتری آئے گی۔سالڈ ویسٹ میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں اس کی ری سائیکلنگ پر کام کرنا ہوگا، اس سے ہمارے بیشتر مشائل ہو جائیں گے۔ n