برطانیہ میں اسقاطِ حمل کو جرم کے دائرے سے نکالنے کے لیے قانون میں تاریخی ترمیم منظور کرلی گئی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق ارکان پارلیمنٹ نے آج ایک تاریخی ووٹنگ میں اسقاط حمل (Abortion) کو جرم کے دائرے سے نکالنے کی منظوری دیدی۔
یہ ترمیم بل لیبر پارٹی کی رکن پارلیمنٹ ٹونیا انتونیازی نے پیش کیا تھا جس کے حق میں 379 اور مخالفت میں 137 اراکین نے ووٹ دیئے تھے۔
اس ترمیم کو قانون بننے کے لیے ابھی ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز سے منظوری حاصل کرنا ہوگی۔
بعد ازاں شاہی منظوری (Royal Assent) بھی ضروری ہے جس کے بعد یہ نافذ العمل قانون بنے گا تاہم حکومت کی اکثریت کے باعث اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔
اس قانون میں ترمیم خواتین کے تولیدی حقوق کے تحفظ میں گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ کے کرائم اینڈ پولیسنگ بل کے تحت انگلینڈ اور ویلز میں ان خواتین کو اسقاط حمل پر مجرمانہ کارروائی کا سامنا نہیں ہوگا۔
اس سے قبل ایسے کیسز میں خواتین کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی تھی۔
اس قانون میں ترمیم کے بعد اب اسقاط حمل کی موجودہ قانونی شرائط جیسا کہ دو ڈاکٹروں کی منظوری اور مخصوص وقت کی حد برقرار رہیں گی۔
دو ڈاکٹروں کی منظوری کے بغیر اور مقررہ میعاد کے بعد اسقاط حملے کروانے پر ڈاکٹر کو سزا ہوسکتی ہے۔
تاہم خواتین کو مجرمانہ سزاؤں جیسے گرفتاری، مقدمہ یا قید کا سامنا نہیں ہوگا۔
اس ترمیم سے قبل گزشتہ برسوں میں کئی خواتین کے خلاف ایسے مقدمات قائم ہوئے جنہوں نے قانونی حد سے تجاوز کرگئے اسقاط حمل کیا تھا۔
کارلا فوسٹر نامی خاتون کو 2023 میں 32 سے 34 ہفتوں کی مدت میں حمل گرانے پر 28 ماہ قید کی سزا ہوئی تھی۔
اسی طرح ایک خاتون بیتھنی کاکس پر تین سال تک مقدمہ چلا تھا جسے 2024 میں بغیر کسی ثبوت کے ختم کر دیا گیا۔
ایک اور خاتون نکولا پیکر ایسے ہی ایک مقدمے میں 5 سال بعد بری ہوئی تھیں۔