21 جون شہید محترمہ بے نظیر بھٹو (شہید بی بی) کا یوم پیدائش ہے۔ 21 جون 1953 کو کراچی میں ان کا جنم ہوا۔
اس دن ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو، ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور بھٹو خاندان نے کس قدر خوشیاں منائی تھیں۔ اس کا ذکر شہید بھٹو نے اس خط میں تفصیل سے کیا ہے، جو انہوں نے 21 جون 1978 کو شہید بی بی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر راولپنڈی جیل کی موت کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا۔ یہ خط ”میری سب سے پیاری بیٹی“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔
اس خط میں شہید بھٹو نے بتایا ہے کہ شہید بی بی انتہائی رحمدل اور حساس طبیعت کی مالک تھیں اور ایک کبوتر کے مرنے پر سارا دن روئی تھیں اور کھانا نہیں کھایا تھا۔ اسی بیٹی کو انہوں نے سالگرہ کے موقع پر ”عوام کا ہاتھ‘‘ تحفے میں دیا اور کہا کہ میرے پاس موت کی کال کوٹھڑی میں سالگرہ کا کوئی اور تحفہ دینے کےلیے نہیں ہے۔ انتہائی رحم دل شہید بی بی نے اس تحفے کو سنبھالنے کےلیے دنیا کی انتہائی بے رحم اور سنگدل استعماری قوتوں کا مقابلہ کیا اور صرف 54 سال کی عمر میں پاکستان اور اس کے عوام کےلیے اپنی جان قربان کردی۔
شہید بی بی ایک جگہ لکھتی ہیں کہ اپنے بابا کی پھانسی سے ایک دن قبل آخری ملاقات میں ان سے میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں ان کے مشن کو جاری رکھوں گی۔ شہید بابا سے اس وعدہ کے بعد شہید بی بی نے 30 سال تک کٹھن جدوجہد کی اور مرتے دم تک صعوبتیں اور دکھ جھیلتی رہیں۔ شہید بھٹو کا مشن کیا تھا، اسے شہید بی بی نے ایک واضح پروگرام کے طور پر آگے بڑھایا۔ یہ مشن جمہوریت کے ذریعے جمہور (عوام) کو تمام فیصلوں کا اختیار دینا اور ریاست پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا تھا کیونکہ شہید بھٹو یہ سمجھتے تھے کہ دفاعی طور پر کمزور ریاست میں کبھی کوئی جمہوری اور سیاسی نظام نہیں پنپ سکتا۔ شہید بھٹو کا یہ فلسفہ پاکستان پر حالیہ بھارتی جارحیت اور ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بعد آج لوگوں کو بہتر طور پر سمجھ آنے لگا ہے۔ جمہوریت اور ریاست کے استحکام کےلیے جدوجہد ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس مشن کو جس طرح آگے بڑھایا، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا دورِ سیاست پاکستان کی جمہوری قوتوں کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی سلامتی کےلیے خوفناک چیلنجز اور ابتلا کا دور تھا۔ شہید بی بی نے نہ صرف دو فوجی آمروں کے خلاف جمہوری جدوجہد کرکے جمہوریت بحال کرائی بلکہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنانے کےلیے بھی غیر معمولی اقدامات کیے۔
آج ان کے جنم دن پر یہ بہترین موقع ہے کہ ہم شہید بی بی کے ان غیر معمولی اقدامات کا تذکرہ کریں، جو انہوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کی خاطر کیے۔ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ شہید بھٹو پاکستان کے جوہری (ایٹمی) پروگرام کے سیاسی معمار ہیں اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے موجودہ میزائل پروگرام کی سیاسی معمار ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے بابا کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی بلکہ اس کو آگے بڑھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1988 میں وزارت عظمیٰ سنبھالتے ہی پاکستان کے میزائل پروگرام کا آغاز کیا۔
1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو حتمی شکل دی۔ 1988 میں بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو قابل عمل بنایا۔ جس طرح شہید بھٹو نے فرانس اور دیگر ممالک سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کےلیے اپنی سفارتی مہارت کو استعمال کیا، اسی طرح شہید بی بی نے شمالی کوریا اور چین سے میزائل ٹیکنالوجی کے حصول کےلیے اپنی سفارتی مہارت سے کام لیا۔ 1989 میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم میزائل ٹیکنالوجی بورڈ قائم کیا۔ انہوں نے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی کے بلیو پرنٹ حاصل کیے بلکہ اپنی دونوں حکومتوں میں کئی دفاعی معاہدے کیے۔ انہوں نے اپنے دور میں ہی حتف میزائل پروگرام کا آغاز کیا اور میزائلوں کے کامیاب تجربات کیے۔ شہید بی بی نے ہی چین کے ساتھ ایسے دفاعی معاہدے کیے، جن کی وجہ سے آج پاکستان کو دفاعی ٹیکنالوجی میں بھارت پر کئی لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا، جس کا پاکستان نے ایسا جواب دیا کہ بھارت مدتوں یاد رکھے گا۔ شہید بی بی کے جنم دن پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کے دفاع کو مضبوط تر بنانے کےلیے ہم ان کے غیر معمولی اقدامات کا اعتراف کریں اور انہیں سلام پیش کریں۔
پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت نے نہ صرف جمہوریت بلکہ ریاست پاکستان کی سلامتی کےلیے اپنی جانیں قربان کردیں۔ اپنی جلاوطنی کے دوران شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے مارچ 2005 میں واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میرے بابا نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ میں شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لائی، میں نے چین کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی کے معاہدے کئے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں ہی پاکستان کے لیے دیگر ملکوں سے جدید اسلحہ لا سکتی ہوں۔ میں ہی امریکا سے ایف 16 اور فرانس سے میراج طیارے لاسکتی ہوں لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ یہ ساری دنیا جانتی ہے۔ لیکن تمام تر تکالیف کے باوجود پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے اور پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو مضبوط بنانے کے مشن سے بھی نہیں ہٹیں گے۔ ہم پاکستان اور اس کے عوام کے لیے جیتے اور مرتے ہیں۔ میں جلا وطنی میں بھی حکمرانوں سے زیادہ پاکستان کے لیے سفارت کاری کر رہی ہوں۔“
شہید بی بی نے اپنے عمل سے اپنے شہید بابا کے مشن کو واضح طور پر آگے بڑھایا۔ پاکستان کے عوام کے جمہوری حقوق اور ریاست پاکستان کی سلامتی کا یہ مشن تھا۔ آج اسی مشن کو پاکستان شہید بی بی کے لخت جگر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس طرح سفارتی محاذ پر وہ پاکستان کی فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ یہ شہید بھٹو اور شہید بی بی کے مشن کا ایک بنیادی ایجنڈا ہے۔
آج شہید بی بی کی 72 ویں ساگرہ پر ہمیں ان کی بہت کمی محسوس ہورہی ہے۔ بقول غالب ’’ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ جیسا کہیں جسے‘‘۔ شہید بی بی کہتی تھیں کہ کسی شخص کو قید یا جلا وطن کیا جاسکتا ہے لیکن نظریہ کو نہیں۔ ہم اس بات کو یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ کسی شخص کو قید، جلاوطن یا قتل تو کیا جاسکتا ہے لیکن نظریہ کو نہیں۔ شہید بی بی نے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے انتقام کی بجائے، مفاہمت کا جو نظریہ دیا، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بقول شاعر
تیرے بعد بھی گزرے ہیں کچھ لوگ
مگر تیری خوشبو نہ گئی رہ گزر سے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔