بلدیاتی انتخابات سے مسلسل گریز

مسلمان ممالک کے حکمران تو خیر‘ پیسے کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں


[email protected]

چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد میں اب بھی بلدیاتی انتخابات نہ ہوئے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو بلا سکتے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آرڈر کر دیا تو سبکی کا باعث ہوگا۔ کیا پنجاب حکومت پنجاب میں اور وفاقی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور پنجاب حکومت نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں تین سال کی تاخیر کر دی ہے۔

الیکشن کمیشن، پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر اس بار اتنا برہم ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو کہنا پڑا کہ باقی تین صوبوں نے بلدیاتی انتخابات پہلے ہی کرا دیے تھے مگر بار بار کی ہدایات کے باوجود پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ ہم اس سلسلے میں اب آرڈر پاس کریں گے کہ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ اب الیکشن کمیشن آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتا۔

 اسلام آباد وفاقی اور پنجاب صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ سب سے پہلے کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے وہاں جب بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اس وقت وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ کے پی میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی کو زیادہ کامیابی ملی تھی اور پشاور تک میں پی ٹی آئی اپنا میئر نہ لا سکی تھی اور اسے بعض دیگر اضلاع میں ناکامی ہوئی تھی جس پر دوسرے مرحلے میں وزیراعظم نے بلدیاتی انتخابات میں ذاتی مداخلت کا الزام لگا اور دونوں حکومتوں کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تھی اور وہاں بلدیاتی انتخابات کو تین سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ان کی مدت بھی پوری ہونے والی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی نے دو سال قبل بلدیاتی الیکشن کرا دیے تھے جن میں ایم کیو ایم نے حصہ نہیں لیا تھا اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے باعث بھرپور کامیابی حاصل کر لی تھی اور سندھ حکومت پہلی بار کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تھی اور کراچی کے ٹاؤنز جو 26 ہوگئے تھے وہاں 9 میں جماعت اسلامی نے اپنے چیئرمین منتخب کرا لیے تھے اور باقی ٹاؤنز اور یوسیز میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے اور کے پی میں پی ٹی آئی نے اپنی مرضی اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی کا بے اختیار کمزور بلدیاتی نظام منظور کرایا تھا جو آئین کے برعکس ہے۔

الیکشن کمیشن کے اجلاس میں بتایا گیا کہ 2019 سے لے کر اب تک پنجاب میں 5 مرتبہ مقامی حکومتی قوانین تبدیل ہوئے اور اب چھٹی بار بلدیاتی قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ میں اس سلسلے میں خود سپریم کورٹ میں پیش ہو چکا ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی قانون سازی نہ کرے اور پانچ سال بلدیاتی الیکشن ہی نہ ہوں اور الیکشن کمیشن یہ سب کچھ دیکھتا رہے اور کچھ نہ کرے ہم اس سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو بلا سکتے ہیں اور آرڈر کرنا ہوگا۔

پنجاب کی طرح اسلام آباد میں بھی بلدیاتی انتخابات وفاقی حکومت نہیں کرا رہی۔ پہلی بار اسلام آباد میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، اس میں مسلم لیگ (ن) کا میئر منتخب ہوا تھا جس کے بعد وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آگئی تھی جس نے (ن) لیگ کی دشمنی میں (ن) لیگی میئر کو دو بار غیر قانونی طور پر برطرف کیا تھا جنھیں عدلیہ نے دونوں بار بحال کیا تھا اور مدت پوری ہو سکی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی کے بعد (ن) لیگی وزیر اعظم بھی اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرا رہے۔

شہباز شریف 2018 سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو وہاں بھی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جن میں (ن) لیگی امیدواروں نے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی بری طرح ہاری تھی جس کا انتقام پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے لے کر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات آتے ہی توڑ دیے تھے جس کے خلاف لارڈ میئر لاہور و دیگر میئرز نے لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب حکومت کا فیصلہ چیلنج کیا تھا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا جہاں پنجاب حکومت کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیا گیا اور بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیا گیا تھا مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر بھی ادارے بحال نہیں کیے تھے کیونکہ وزیر اعظم (ن) لیگی بلدیاتی اداروں کی بحالی نہیں چاہتے تھے جو ان کی فسطائیت تھی اور انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیا تھا جس کے خلاف معزول میئرز دوبارہ سپریم کورٹ گئے جس کے حکم پر بلدیاتی ادارے اس وقت بحال کیے گئے تھے جب ان کی مدت ختم ہونے والی تھی۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے وزیراعظم نے پنجاب حکومت کے ذریعے پنجاب کے تمام بلدیاتی عہدیداروں کے مالی اختیارات سلب کرائے تھے۔

پی ٹی آئی حکومت نے 2021 تک کے پی میں بلدیاتی انتخابات کرائے مگر مقبولیت ختم ہو چکی تھی اسی خوف سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات دس سال میں صرف (ن) لیگی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے تھے اور مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کی طرح بلدیاتی انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کے مطابق واقعی دلچسپی نہیں رکھتی جس کا ثبوت واضح ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے حالانکہ پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کیرہنما سوا سال سے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کو اہمیت نہیں دی جا رہی اور وہ اپنے اپنے ارکان کو کچھ اہمیت دیتے ہیں اور انھیں ہی ترقیاتی فنڈز دیتے ہیں جو غیر قانونی اقدام ہے کیونکہ ترقیاتی فنڈز صرف بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق دیے جا سکتے ہیں مگر تینوں بڑی پارٹیاں ارکان اسمبلی کو رشوت کے طور پر ترقیاتی فنڈز دیتی آ رہی ہیں جو غیر قانونی اقدام ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں مقبولیت کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ بھی ہے اس لیے اسلام آباد اور پنجاب میں غیر آئینی طور بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو اس آئینی خلاف ورزی پر کوئی فیصلہ دینا چاہیے اور بلدیاتی اداروں کو آئینی اختیارات بھی دلانے چاہئیں تاکہ صوبائی حکومتوں کی آمریت ختم ہو سکے۔

مقبول خبریں