وادئی یارخون سے آگے ؛  کرومبر جھیل کا دل چسپ سفرنامہ

آگے اب بار بار چڑھائیاں اور اترائیاں تھیں، جس سے میرے پاؤں بھی مزید مشکلات کا شکار ہوگئے


ندیم اسرار July 14, 2025

اس راستے پر تین چار چڑھائیاں کافی سیدھی تھیں۔ اس طرح کی ایک چڑھائی چڑھ کر اوپر پہنچو پھر اتنی ہی گہرائی میں جاؤ اور پھر آگے چڑھائی۔ یہاں پر بہ مشکل دو چڑھائیاں تو میں نے طے کرلیں لیکن تیسری چڑھائی پر ٹاپ سے تھوڑا نیچے ہی پھنس گیا، کیوںکہ بائیک بار بار کھائی کی طرف جانے کی کوشش کررہی تھی۔

جب بہت زور لگایا تو مجھے لگا شاید دوسرے گیئر میں ہے حالاںکہ وہ پہلے گیئر میں ہی تھی۔ جیسے ہی گیئر نکالا وہ نیوٹرل ہوکر پیچھے بھاگی اور میرے اوسان خطا ہوگئے۔ اللّہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ چند قدم ہی پیچھے گیا تو میرا سیڈل بیگ دیوار والی سائیڈ پر کسی ابھرے ہوئے پتھر میں اٹک گیا اور میں بائیک سمیت آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کی عملی تصویر بن گیا۔ پیچھے سے غلام قادر دوڑ کر آیا اور مجھے دھکا لگا کر بلندی تک پہنچایا۔

میں پیچھے ہونے والے واقعے کی وجہ سے اچانک ہی اپنی ڈرائیونگ کا اعتماد ختم کر بیٹھا تھا اس لیے دوسری طرف اترائی پر جاتے ہی رولر پتھروں پر بائیک سمیت گرگیا۔ اس وقت میرے اور ساتھیوں کے درمیان بلندی حائل تھی جس کی وجہ سے وہ مجھے گرتا دیکھ ہی نہیں پائے۔ میں جب بھی بائیک سے گرتا ہوں تو بھائی راشد ہمیشہ میری بائیک اٹھاتے ہیں، کیوںکہ بائیک بھی وزنی ہوتی ہے اور اوپر کافی سامان بھی لدا ہوتا ہے، لیکن آج پہلی بار میں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر خود ہی بائیک کھڑی کرلی اور انہیں کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔

میرے حساب سے یہ ہمارے سفر کا سب سے مشکل حصہ تھا جو ہم نے طے کیا۔ جیسے میں نے گرنے کا نہیں بتایا تھا ویسے ہی بھائی راشد نے سائیلینسر کے ساتھ اپنا پاؤں جلنے کا بھی نہیں بتایا۔ ایک چڑھائی چڑھتے ہوئے ان کی بائیک کھائی کے کنارے تک چلی گئی تھی اور اسے روکنے کے لیے انہوں نے پاؤں کا سہارا لیا، جس سے سائیلینسر ان کی پنڈلی کے ساتھ چپک گیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے ضبط کرکے بائیک کو واپس کھینچ لیا۔

مزید کوئی دو گھنٹے بعد ہم کشمانجا نامی چیک پوسٹ تک پہنچے۔ یہ غالباً مستوج سے اب تک تیسری آرمی چیک پوسٹ تھی۔ ہر جگہ پر انٹری کروانی پڑتی ہے۔ ایک فوجی بھائی سے پوچھا کہ آگے راستہ کیسا ہے، اس نے بتایا مشکل راستہ تو آپ نے طے کرلیا آگے بس مزے سے جائیں۔ اور آگے پھر ایسے مزے شروع ہوئے کہ اس بھائی کو دل ہی دل میں ناقابل اشاعت قسم کی صلواتیں سنائیں۔

پھر سے وہی لینڈ سلائیڈ والے راستے بڑے بڑے پتھر اور فٹ بال کی طرح اچھلتی موٹرسائیکل۔ مزید دو گھنٹے بعد بروغل ویلی پہنچے۔ وادی بروغل پر بندہ ڈرون کیمرے کی طرح نازل ہوتا ہے۔ بہت نیچے سرسبز میدان، میدان میں پھرتے بہت سے یاک اور چند گھوڑے کسی پینٹنگ جیسے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں پر آخری انٹری ہوئی اور پھر آگے چل پڑے۔ بروغل کے خارجی راستے پر تھوڑی دیر سستانے کے لیے رکے۔ ارد گرد بے شمار مار موٹ پھر رہے تھے۔

چوہے سے مشابہ خرگوش کی طرح آگے سے ٹانگیں اٹھائے ہوئے، جنگلی بلے کے سائز کے یہ جانور یہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ کسی پتھر کے اوپر بیٹھ کے لوفر لڑکوں جیسی سیٹیاں بجاتے اور تھوڑا قریب ہونے پر اپنے بل میں چھپ جانے والے یہ جانور مجھے ہمیشہ سے بہت پسند ہیں۔

بروغل سے آگے لینڈ سلائیڈ والا علاقہ تو نہیں ہے لیکن چند چڑھائیاں بہت خوف ناک قسم کی ہیں، جو آخر تک پہنچتے پہنچتے بائیک کی جان نکال دیتی ہیں۔ یہاں پر غلام قادر بھی ایک بار زمیں بوس ہوگیا۔

حالاںکہ بہت مشکل مقامات پر غلام قادر خلاف توقع ثابت قدم رہا تھا لیکن جہاں پر گرا تھا وہاں کوئی خاص دقت والی چیز نہیں تھی۔ میرے خیال میں اس راستے کی سختیاں بندے کے اعصاب توڑ کر رکھ دیتی ہیں اور جہاں کوئی تھوڑا سا ریلیکس ہونے کی کوشش کرتا ہے وہیں پر گر جاتا ہے۔ شام کے سائے لمبے ہوچکے تھے جب ہم لشکر گھاس پہنچے۔ کہنے کو بونی سے 160 کلومیٹر کی آف روڈ ہے لیکن تقریباً دو دن لگ گئے یہاں تک پہنچتے پہنچتے۔

لشکر گھاس میں کرومبر ان ہوٹل میں پہنچے۔ نام سے اسے کوئی تھری اسٹار ہوٹل نہ سمجھ لیجیے گا۔ یہ دو کچے کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ اس کے مالکان دو بھائی ہیں امین اللّہ اور سلطان کنگ۔ ہماری ملاقات امین اللّہ سے ہوئی۔ اس نے تین ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے یارخون پاور والے ہوٹل کے مالک کا حوالہ دیا جو کہ اس کا بہنوئی تھا۔ تب اس نے کہا جو مرضی دے دیں۔ ہم نے دو ہزار فی رات کے حساب سے معاملہ طے کرلیا۔

چھوٹے سے کمرے میں تین میٹریس زمین پر بچھے تھے۔ کھٹمل وغیرہ آزادانہ گھوم رہے تھے لیکن یہاں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہ تھی کیوںکہ ہمارے سامنے اس ٹریک کے بہترین مناظر بچھے ہوئے تھے۔

پورے دن کے بھوکے تھے روٹیوں کا آرڈر دیا اور ٹن فوڈ کھول کر چکن کڑاہی گرم کی۔ یہ اس وقت ہمارے لیے دعوت سے کم نہ تھی۔ کھانا کھا کر چائے بنانے لگے تو ایک نیا انکشاف ہوا کہ چینی تو ہم لانا ہی بھول گئے۔ امین اللّہ سے چینی مانگی تو اس نے جواب دیا یہاں کوئی بھی چینی استعمال نہیں کرتا بلکہ سب نمکین چائے پیتے ہیں۔ بغیر چینی کے چائے بنائی اور سب کہتے تھے کہ چینی کے بغیر بھی ٹھیک ہی ہے۔

امین اللّہ کو بتایا ہم نے صبح ٹریک کرنا ہے۔ وہ کہتا کیا ضرورت ہے ٹریک کی بائیکس پر آگے جاؤ اور شام تک جھیل سے ہو کر واپس آجاؤ، لیکن میں آج دن والی بائیکنگ کے بعد بالکل اس حق میں نہیں تھا۔ مجھے پیدل چلنا منظور تھا لیکن آگے بائیک پر بالکل بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔ ویسے بھی میں بائیکنگ کے مقابلے میں ٹریکنگ پسند کرتا ہوں۔ لہٰذا امین اللّہ نے ایک گدھے والے کا بندوبست کردیا جو ہمارا سامان لاد کر کرومبر جھیل آنے جانے کے لیے ساتھ تیار ہوگیا۔

امین اللّہ سے کہا صبح ہمیں ساتھ لے جانے کے لیے گھر سے روٹیاں پکوا دینا، لیکن وہ اللّہ کا ولی رات کو ہی بیس روٹیاں بنوا لایا کہ صبح اتنا وقت نہیں ہوگا۔ ہم صبح اٹھے، ناشتہ کیا، چائے پی اور سامان موٹرسائیکلوں سے اتار کر پیک کرکے رکھ دیا، تاکہ گدھے پر لادنے میں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا، لیکن امین اللّہ صبح اس خبر کے ساتھ برآمد ہوا کہ رات ہمارے گاؤں میں ایک l بچہ فوت ہو گیا ہے تو اب کوئی بھی آپ کے ساتھ نہیں جائے گا، اس لیے آپ لوگ بائیکس پر آگے چلے جائیں۔

مسئلہ یہ تھا کہ بیس پچیس گھروں پر مشتمل گاؤں تھا، اس لیے ایک دوسرے کی خوشی غمی میں ضرور شرکت کرتے تھے۔ ہم نے بادل نہ خواستہ دوبارہ بائیکس پر سامان باندھنا شروع کردیا۔ جب باندھ کر چلنے کے لیے تیار ہوئے تب امین اللّہ پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ آگے والے گاؤں سے ایک گدھے والا اتفاقاً ادھر آگیا ہے۔ اس سے بات کی ہے تو وہ آگے جانے کے لیے تیار ہے۔ ہم اب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ آخر کار پھر فیصلہ ہوا کہ پیدل ہی چلتے ہیں۔ اس لیے پھر بائیکس سے سامان اتارا اور گدھے پر بوجھ کر دیا۔

ہم کوئی ساڑھے سات بجے کے قریب چلنے کے لیے تیار تھے۔ یہاں ایک غلطی ہوگئی مجھ سے۔ میرے پاس جوگرز بھی تھے اور ٹریکنگ شوز بھی تھے، یہ والے ٹریکنگ شوز میرے دوست ندیم احمد نے مجھے بہ طور تحفہ دیے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ میں نے لنڈے سے لیے تھے لیکن زیادہ وزنی ہیں تو میرے کسی کام کے نہیں، میں بھی اپنے پرانے ٹریکنگ شوز چھوڑ کر یہی اٹھا لایا تھا کہ چلو اس بار چیک ہوجائیں گے۔ حالاںکہ میں سب کو نصیحت کر رہا ہوتا ہوں کہ کبھی بھی کسی ٹریک پر بغیر ٹرائی کیے ہوئے لنڈے کے شوز نہیں پہننے چاہییں۔ جب میں وہ شوز پہن رہا تھا تو بھائی راشد نے کہا بھی کہ ان جوتوں کے ساتھ ٹریک کرلو گے؟ میں نے کہا کوئی مسئلہ نہیں۔ صرف ایک چپل ساتھ رکھی اور جوگرز بھی ہوٹل میں ہی چھوڑ دیے۔

ٹریک شروع ہوگیا۔ شارٹ کٹ کے چکر میں اسٹارٹ پر ہی چڑھائی چڑھنی شروع کردی۔ ویسے تو کوئی بہت سخت چڑھائی نہ تھی لیکن ٹریک کی شروعات میں ابھی آپ کے پھیپھڑے اتنا زور لگانے کے عادی نہیں ہوتے، آہستہ آہستہ سانس پختہ ہوتی ہے۔ لشکرگھاس گاؤں کو پار کیا تو آگے ایک بہت ہی خوب صورت سرسبز میدان تھا جو کافی زیادہ لمبائی میں تھا۔ تھوڑا اوپر سے بالکل ایسا لگتا تھا جیسے ہاکی کے میدان میں آسٹروٹرف بچھی ہوئی ہو۔ ہم اس میدان کے بائیں کنارے پر چل رہے تھے۔ اس میدانی علاقے کو پار کرنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔

اب ہر طرف مارموٹوں کی بہتات تھی۔ ان کی حرکتیں بہت بھلی لگتی ہیں۔ یہ اپنے بل سے نکل کر کسی قریبی پتھر پر چڑھ جاتے اور اپنی اگلی ٹانگیں خرگوش کی طرح اٹھا لیتے ہیں اور ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ سے بالکل بے نیاز ہو کر بیٹھے ہیں اور اپنی مستی میں سیٹیاں بجا رہے ہیں،  لیکن تھوڑا قریب جائیں تو فوراً اپنے بل میں گھس جاتے ہیں۔ ایک گھنٹے بعد میرے پاؤں میں جوتوں کا وزن محسوس ہونا شروع ہوگیا تھا۔ بعض اوقات مجھے لگتا کہ میرے ہر سفر میں کچھ مشکلات تو قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں اور کچھ مصیبتیں میری اپنی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔

بائیک پر ہماری ہمیشہ یہ ترتیب ہوتی کہ میں سب سے آگے ہوتا اور بھائی راشد سب سے پیچھے، جب کہ ٹریکنگ میں اس کے بالکل الٹ ہوتا۔ اب بھی بھائی راشد سب سے آگے تھے اور میں سب سے پیچھے۔ جب کہ ہمارا کچھوکماں۔۔۔ اوہ سوری۔۔۔ غلام قادر درمیان میں تھا۔ ایک جگہ پر ایک نالہ عبور کرنا تھا تو میں نے غلام قادر سے کہا کہ جو پتھر نالے میں ابھرے ہوئے ہیں ان پر پاؤں نہ رکھنا کیوںکہ ان پر کائی جمی ہوئی ہے پھسل جاؤ گے، بہتر ہے شوز اتار کر پار کرلو۔ ایسے موقعوں پر غلام قادر کا ایک ہی فقرہ ہوتا،’’کجھ نئیں ہوندا‘‘ (کچھ نہیں ہوتا)۔ بس پھر غلام قادر کا پاؤں پھسلا اور وہ نالے میں گھڑم۔۔۔، صبح صبح ہی غسل کر کے باہر تشریف لے آیا۔

آگے اب بار بار چڑھائیاں اور اترائیاں تھیں، جس سے میرے پاؤں بھی مزید مشکلات کا شکار ہوگئے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ پاؤں میں چھالے بھی پڑ گئے ہوں گے۔ دو گھنٹے بعد اگلے گاؤں میں پہنچے جس کا نام شوارشیر ہے، گدھے والا بھی اسی گاؤں کا تھا۔ وہ ہمیں گاؤں کے میدان میں بٹھا کر لنگر پانی کے لیے اپنے گھر چلا گیا۔

میں نے وہاں جا کر اپنے شوز اتارے تو لگا کہ مجھ پر دنیا بھر کا سکون نازل ہوگیا ہے۔ ایک دل چسپ بات بتاتا چلوں کہ ہمیشہ ہر ٹور پر میں نے اپنا سامان استعمال کیا ہے لیکن اس بار کچھ یوں ہوا کہ ٹور سے اچانک پہلے انکشاف ہوا کہ میری بائیک کا انجن ڈاؤن ہوچکا ہے۔ بھائی راشد کے پاس سوزوکی کی دو بائیکس ہیں تو ان کی بائیک لے لی۔ میرے لاہور کے دوستوں نے کہا کہ ہم تو نہیں جا رہے ٹور پر لیکن تم ہمارے لیے اچھی اچھی ویڈیوز ضرور بنالینا۔ اس مقصد کے لیے ندیم احمد نے اپنا گوپرو مجھے دے دیا۔ اسکو میرے ہیلمٹ پر لگانے کا مسئلہ تھا تو انہوں نے اپنا ہیلمٹ بھی دے دیا، ساتھ ٹریکنگ شوز بھی دے دیے۔

ایک اور دوست ہارون یوسف نے اپنی بائیک کے سیڈل بیگ، ٹینک بیگ اور بائیک کی کافی اسیسریز بھی دے دیں۔ ہیلمٹ کافی وزنی تھا جس کی وجہ سے میں کافی بے سکونی سے بائیک چلاتا تھا۔ راستے میں بھائی راشد سے ہیلمٹ تبدیل کیا تو مجھے لگا دنیا ہی بدل گئی ہے اور اب شوز اتارے تو پھر سے لگا جیسے کسی عذاب سے نجات ملی ہو۔ میرے پاس وزن کرنے والا چھوٹا سا کانٹا تھا، اس سے ٹریکنگ شوز کا وزن کیا تو پتا چلا وہ اڑھائی کلو کے تھے۔ میں نے شوز گدھے کے ساتھ لٹکائے اور آگے چپل میں ہی ٹریک کرنے کا ارادہ کرلیا۔ بھائی راشد نے ازراہِ مذاق کہا مجھے لگتا ہے کہ اس ٹور میں اپنے ذاتی کپڑوں کے علاوہ سب کچھ مانگ کے لائے ہو۔

اس میدان میں گاؤں کے چند بچے بھی ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ زبان سے کچھ نہیں کہتے تھے لیکن ان کی نظریں بہت کچھ کہتی تھیں۔ ان میں چاکلیٹ کینڈیز اور کھجوریں بانٹ دیں کیوںکہ یہں ایسی چیزیں بچوں کی پہنچ سے بہت دور ہوتی ہیں۔ سفر دوبارہ شروع ہوگیا۔ اب میں چلنے میں کافی بہتر محسوس کررہا تھا۔ مزید ایک گھنٹہ چلے تو ایک نالے کے پاس چند خیمے نصب ہوئے دیکھے۔ وہاں دو مقامی بیٹھے تھے۔

ان سے پتا چلا کہ ان کی ٹیم جو کافی سارے لڑکوں پر مشتمل ہے کرومبر جھیل پر گئی ہوئی ہے اور شام تک واپس آئیںگے۔ مزید ایک گھنٹے بعد ہم ایسی جگہ پہنچے جہاں پر یاکوں کے ریوڑ چر رہے تھے۔ اسی جگہ کی وجہ سے تارڑ صاحب نے اپنے سفرنامے کا نام یاک سرائے رکھا تھا۔

اب غلام قادر کی شدید خواہش تھی کہ میں اس کی تصویر کسی یاک بلکہ یاکنی کے ساتھ اتاروں، لیکن وہ جیسے ہی ان کے قریب جانے کی کوشش کرتا وہ دور بھاگ جاتیں۔ کافی بھاگ دوڑ کرکے کچھ قریب سے تصویر اتاری۔ ہمارے گدھے والے کے بقول اب تک آدھا سفر طے ہو گیا تھا۔ یہاں بھی تھوڑا وقفہ کیا۔ کھجور وغیرہ کھا کر پھر چل پڑے۔

آگے بھی راستہ پیچھے والے راستے جیسا تھا۔ کبھی چڑھائی کبھی اترائی، لیکن یہ بتاتا چلوں کہ اس راستے پر ایک ایسا سحر ہے جو مجھے اور کسی راستے پر محسوس نہیں ہوا۔ دونوں طرف سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے میدانی راستے پر ناک کی سیدھ میں چلتے جارہے ہیں۔ سارے راستے میں مارموٹ گھاس اور پیلے پیلے پھولوں کی کثرت ہے اور دونوں طرف سے بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف ہے۔

اب چپل میں بھی چلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا کیوںکہ اتنا لمبا سفر چپل کے ساتھ بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔ میں اور غلام قادر بہت پیچھے تھے اور رک رک کر چلتے تھے۔ عصر کے وقت پر ہم دونوں تو ایک جگہ بالکل ہی لم لیٹ ہوگئے۔ بھائی راشد اور گدھے والا کہیں آگے گم ہوچکے تھے۔ اس سفر میں بہت بار ایسے لگتا جیسے بس یہ سامنے والی چڑھائی کے پار جھیل ہوگی، لیکن اس چڑھائی پر پہنچیں تو دوبارہ ایک ویسی ہی چڑھائی نظر آتی ہے اور یہ بہت صبرآزما مرحلہ ہوتا ہے۔

آخرکار ہمیں جھیل نظر آ ہی گئی، لیکن تھوڑی دیر بعد پھر غائب ہوگئی، اور پھر لگا کہ شاید ہمارے ساتھ کوئی دھوکا ہوا تھا۔ اس پہلی بار نظر آنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد ہم جھیل تک پہنچے۔ کم از کم دس گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہم یہاں تک پہنچ پائے تھے، اور سمجھ لیں ہمارا تقریباً سات سال کا انتظار اختتام پذیر ہوا۔

جھیل کے بارے میں تو میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن فی الحال اس کو سائیڈ پر رکھتے ہیں۔ میں اور غلام قادر بعد میں پہنچے تھے جب کہ بھائی راشد اور گدھے والا آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ گئے تھے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے خیمہ نصب کردیا تھا۔ یہ بہت اچھا لگتا ہے جب اپ اپنی منزل پر پہنچیں اور آپ کا ٹینٹ پہلے سے لگا ہوا ہو۔ غلام قادر کی طبیعت جلد ہی خراب ہونے لگی، جو لازماً بلندی کا اثر تھا۔ وہ ٹینٹ سے باہر ہی میسٹرس بچھا کر لیٹ گیا۔ میں نے چھوٹا سلنڈر نکالا اور کنور کا سوپ بنانے لگا۔

گھر میں جو لسٹ بنائی تھی اس میں ماچس اور لائٹر بھی لکھا ہوا تھا۔ پھر چند چیزیں باقی تھیں لیکن بچوں نے لسٹ کا ستیاناس کردیا۔ میں نے اپنی یادداشت کے سہارے بونی سے باقی ماندہ چیزیں خرید لیں۔ لشکر گھاس پہنچ کر پتا چلا کہ چینی اور ماچس لینا بھول گئے تھے۔ چینی تو سرے سے ملی ہی نہیں اور امین اللّہ نے ایک ماچس لا کردی تھی، جس میں صرف چھے تیلیاں تھیں۔ اب ایک تیلی جلا کر سوپ تیار کر رہا تھا۔ تب راشد بھائی سے کہا گدھے والے سے ماچس تو پوچھیں ذرا۔ اس نے کہا وہ تو آدھے گھنٹے سے انتظار کر رہا ہے کہ کب تم پہنچو اور وہ اپنا نشہ پانی پورا کر سکے۔

اور یہ حقیقت ہے کہ وادی بروغل کے لوگ بہت زیادہ منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ تارڑ صاحب کی کتاب یاک سرائے میں اس کا وضاحت سے ذکر موجود ہے۔ میں نے کہا کہ ہمارے پاس تو اب صرف پانچ تیلیاں ہیں اسے دے دیں گے تو ہم کیا کریں گے۔ ابھی یہی بات ہوئی تھی کہ گدھے والے نے منہ خیمے میں ڈال دیا اور بولا ’’ماچس۔‘‘ میں نے کہا کہ ہمارے پاس تو صرف پانچ تیلیاں ہیں۔ ہمیں کھانا گرم کرنا ہے، پھر چائے بنانی ہے اور صبح بھی ناشتہ بنانا ہے۔

 اس لیے ماچس تو نہیں مل سکتی۔ اس نے ماچس کو گھورنا شروع کردیا اور میری طرف دیکھے بغیر بولا ’’ماچس۔‘‘ میں نے کہا جو بھی کرنا ہے یہ سلنڈر جل رہا اسی پر کرلو۔ وہ کہنے لگا کہ جو مجھے کرنا ہے وہ سلنڈر پر نہیں ہو سکتا اور جو بھی کرنا ہے وہ اُدھر دور جا کے کرنا ہے۔ وہ بات کرتا تھا لیکن دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر، بس ماچس کو گھور رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ اگر ماچس نہ دی تو یا وہ ماچس اٹھا کے بھاگ جائے گا یا پھر ہمیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ اسے سوپ کی رشوت بھی پیش کی لیکن وہ ماچس کو ایسے دیکھتا تھا جیسے اس میں اس کی جان ہو۔ جیسے بچوں کی کہانیوں میں ایک طوطا ہوتا جس میں دیو کی جان ہوتی۔

آخر کار میں نے اس سے یقین دہانی لی کہ وہ صرف دو تیلیاں استعمال کرے گا اور جلدی واپس بھی آئے گا۔ اس نے وعدہ کیا اور ماچس لے لی۔ اس کے پھیکے پڑچکے چہرے پر زندگی کے رنگ لہرا گئے۔ اپنا گدھا ہمارے ٹینٹ کے قریب باندھ کر وہ غائب ہوگیا۔ ٹینٹ میں ہونے کی وجہ سے میں اس کے جانے کی سمت کا تعین بھی نہ کرپایا۔

ہم سوپ پی کر لیٹ گئے۔ جب وہ گیا تو تقریباً عصر کا وقت تھا، پھر مغرب ہوئی اور شاید عشاء کا وقت بھی ہوگیا، لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ ہم سب ایک ایک کرکے سوتے جا رہے تھے یا پھر بے ہوش ہوتے جارہے تھے، کیوںکہ صبح ناشتہ کیا تھا اور اس کے بعد دس گھنٹے پیدل چلے تھے۔ اتنا پیدل چلنے کے بعد بھوک کا کیا عالم ہوگا یہ ایک ٹریکر ہی بہتر سمجھ سکتا ہے۔

رات کسی وقت میری آنکھ کھلی تو مجھے یاد ہی نہیں تھا کہ میں کدھر ہوں، کیوںکہ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ مجھے لگنے لگا شاید میں قبر میں ہوں کیوںکہ سلیپنگ بیگ ایسے لپٹا ہوا تھا جیسے کفن ہو۔ مجھے بے انتہا گھبراہٹ ہونے لگی۔ ٹریک پر کیمپ میں سوتے ہوئے پہلے بھی کئی بار میں بھول چکا ہوں کہ میں کہاں سویا ہوں، لیکن چند لمحات بعد ہی یاد آ جاتا تھا، لیکن آج رات مجھے کافی دیر یاد نہیں آیا۔ ذہن پر بہت زور دینے سے اور پھر موبائل ہاتھ آ جانے پر یاد آیا کہ ہم تو جھیل پر ہیں۔ ٹائم دیکھا تو 12 بج چکے تھے۔

ہر رات کی طرح پیشاب کرنے کے لیے اٹھا۔ کیمپ سے باہر آیا تو ہر طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے کا راج تھا۔ جھیل کے ساتھ ایک برف پوش پہاڑ ہے جو پورے منظر پر حاوی رہتا ہے۔ اس کی چوٹی پر سفید رنگ کا ایک قالین بچھا نظر آیا جس کو دیکھ کر میں تھوڑی دیر تو خوف کا شکار ہوگیا۔ تھوڑا دھیان دیا تو پتا چلا یہ ستاروں کی ایک کہکشاں بنی ہوئی ہے۔ ایسی کہکشاں میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ کیمپ سے تھوڑی دور جاکر حوائج ضروریہ سے فراغت حاصل کی۔ واپس آ کر دیکھا تو پتا چلا کہ گدھے والا ہمارے ٹینٹ کے ساتھ ہی گھوڑے بیچ کر سورہا ہے۔ میں دوبارہ آ کر لیٹ گیا۔ کم زوری اور نقاہت سے شاید دوبارہ غشی طاری ہوگئی۔

صبح کوئی چھے بجے تک میری آنکھ کھلی۔ میں باہر نکل کر جھیل تک گیا۔ طلوع آفتاب کا نظارہ کیا، اور کافی ساری ویڈیوز بنائیں۔ پھر ہمارے ٹریکر دوست اور ایک کتاب کے مصنف رانا عثمان صاحب کا ایک کام یاد آیا جو انہوں نے میرے ذمے لگایا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ انہوں نے پچھلے سال کرومبر ٹریک کیا تھا اور مستنصر حسین تارڑ صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک پتھر پر ایک شیلڈ نصب کر آئے تھے۔ میرے ذمے انہوں نے یہ کام لگایا تھا کہ اس شیلڈ کو دیکھ لینا اور اگر اپنی جگہ سے ہل گئی ہو تو بہتر طریقے سے نصب کردینا، لیکن شیلڈ بہت اچھی طرح تلاش کرنے پر بھی نہ ملی جو شاید کوئی وہاں سے اکھاڑ کر لے گیا تھا۔

میں اس چٹان سے ہو کر واپس آیا تو باقی دونوں ساتھی بھی بیدار ہوچکے تھے۔ پھر ہم سب نے جھیل کے کوئی تیسرے حصے تک چکر لگایا تصویریں وغیرہ بنوائیں، اور میں نے آج بھائی راشد میں ایک تبدیلی دیکھی۔ وہ کسی بھی ٹریک پر نہ خود تصویر بناتے ہیں اور نہ کسی کو کہتے ہیں کہ میری تصویر بناؤ لیکن آج پہلی بار وہ تصویریں بنوا رہے تھے ۔

تقریباً آٹھ بجے تک واپسی ہوئی اور بھوک سے تو اب مرنے ہی والے ہوگئے تھے۔ گدھے والے کو جگایا اور ماچس طلب کی۔ تب اس نے بھیگی ہوئی ماچس میرے حوالے کردی جس میں اب بس تین تیلیاں باقی تھیں اور وہی ہماری لائف لائن تھیں۔ انہیں سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھ دیا لیکن بلند پہاڑوں کی دھوپ صبح کے وقت بالکل ٹھنڈی ہوتی ہے۔ باری باری تینوں تیلیوں کو ٹرائی کیا اور سب کا مسالا ہی اتر گیا لیکن کوئی بھی نہیں جلی۔

اب صورت حال یہ تھی کہ ہمیں ناشتہ کیے ہوئے 24 گھنٹے گزر چکے تھے اور ہمارے پاس جو روٹیاں تھیں ان کو پکائے ہوئے چھتیس گھنٹے گزر چکے تھے اور وہ کرومبر جھیل کی سردی میں اکڑ کر لکڑی ہوچکی تھیں۔ راشد بھائی نے کہا کہ جیسی بھی ہے مجھے ایک روٹی دے دو۔

میں نے چکن اسپریڈ لگا کر اور ساتھ اچار رکھ کر ایک روٹی دے دی۔ انہوں نے بڑی رغبت سے کھانی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ٹھیک ہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد غلام قادر نے بھی ایک روٹی لی اور کھانے لگا۔ پھر گدھے والے کو بھی دے دی۔ اس نے تو دوبارہ بھی لی۔ اب میں بھی بے تاب ہوگیا ایک روٹی لی اوپر چکن اسپریڈ لگایا، ساتھ اچار رکھا اور اس کھانے کو یادگار بنانے جھیل کے کنارے جا بیٹھا۔ یہ ہمارے لیے لمبے عرصے تک یاد رہنے والا کھانا بن گیا۔ چائے کی بجائے دودھ کا پیکٹ پی کر صبر شکر کرلیا۔

اگلے ایک گھنٹے بعد ہماری واپسی کا سفر شروع ہوگیا اور ہم نہ بھولنے والی یادیں لے کر بوجھل دل سے اس خوب صورت ترین جھیل کو الوداع کہہ رہے تھے۔

مقبول خبریں