سندھ شہر حیدرآباد میں شدید بارش کے نتیجے میں نشیبی علاقوں اور شاہراہوں پر برساتی پانی جمع اورکئی علاقوں میں دکانوں اورگھروں میں برساتی پانی داخل ہوگیا۔ درخت اور چھتیں گرنے سے ایک شخص جاں بحق اور پانچ زخمی ہوگئے۔ ملک بھر میں مون سون بارشوں کا سلسلہ زور پکڑگیا ہے، محکمہ موسمیات نے ملک بیشتر علاقوں میں مزید شدید بارشوں کی پیش گوئی کی ہے جن سے شہری سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور بنیادی ڈھانچے کو تیز ہواؤں کے باعث نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
شدید بارش ایک فطری عمل ہے، مگر جب یہ ہر سال انسانی جانوں، املاک اور بنیادی شہری ڈھانچے کی تباہی کا سبب بننے لگے تو یہ محض قدرتی آفت نہیں رہتی، بلکہ انتظامی غفلت اور نااہلی کی علامت بن جاتی ہے۔
حیدرآباد میں ہونے والی موسلا دھار بارش کے باعث شہر کے نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئے، گھروں اور دکانوں میں پانی داخل ہو گیا، سڑکیں دریا کا منظر پیش کرنے لگیں، بجلی کا نظام معطل ہوا، درخت اور بوسیدہ چھتیں گرنے سے قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوئیں، لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ سب کچھ کوئی نیا منظر نہیں ہے۔ ہر سال مون سون کیبارشیں یہ منظر پیش کرتی ہیں۔ ہر سال تباہی کے بعد شور اٹھتا ہے، بیانات دیے جاتے ہیں، تصاویر کھنچوائی جاتی ہیں، اور پھر اگلے سال کی بارش تک سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ارباب اختیار ہر سال اسی المیے کو دہراتے رہیں گے؟ کیا ہماری حکومتیں، ادارے اور ہم بطور شہری کوئی سبق نہیں سیکھ پاتے؟
پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن ہمارے ہاں اس سنگین مسئلے کو حکومتی سطح پرکبھی سنجیدگی سے نہ لیا گیا، نہ اس کے تدارک کے لیے کوئی مؤثر منصوبہ بندی کی گئی۔ عالمی کانفرنسوں میں نمایندگی ضرور ہوتی ہے، مگر عملی میدان میں ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں دہائیاں پہلے تھے۔پاکستان میں شہر، قصبے اور دیہات خود رو جنگلات کی طرح پھیل رہے ہیں، نکاسی آب کے نظام تباہ حال ہیں اور انتظامی ادارے غیرفعال۔
2022 میں، پاکستان میں سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب کردیا تھا اور ایک ہزار 700 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ مون سون صرف موسم کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک مکمل بحران بن چکا تھا۔ 2025 میں بھی موسمیاتی خطرہ دروازے پرکھڑا ہے۔ بارشوں نے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اورکشمیر میں شدید لینڈ سلائیڈنگ، ندی نالوں میں طغیانی اور شہری اموات کا پیش خیمہ ثابت ہونا شروع کردیا ہے۔
اپر پنجاب میں بھی شدید بارشیں جاری ہیں جب کہ وسطی و جنوبی پنجاب میں بارشیں جاری ہیں جب کہ سندھ میں دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہورہی ہے ، جولائی کے آخر اور اگست کے شروع میں دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں مزید اضافہ ہوگا اور بارشیں بھی ہوگی۔ بلوچستان کی صورتحال بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔اس بحران کا سب سے برا اثر ہماری خوراک پر پڑا ہے۔ گندم، چاول، مکئی، کپاس، دالیں، سبزیاں اور پھل سبھی کسی نہ کسی مرحلے پر متاثر ہو رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے موسموں نے ان کی فطری نشوونما کا نظام بھی بگاڑ دیا ہے۔
فوڈ سیکیورٹی کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ان شدید موسمی حالات کے باعث چھوٹے کسان زمینیں چھوڑ رہے ہیں۔ جب بارش فصل کو خراب کر دے، جب منڈی میں دام نہ ملے، جب بجلی اور ایندھن مہنگا ہو، تو کسان ہار مان لیتا ہے۔ نتیجتاً ہم شہروں میں سجی ہوئی سبزیوں اور پھلوں کو دیکھ کر ان کی اصل قیمت اور کسان کی محنت نہیں سمجھ پاتے۔ وہ قیمت جو ایک کسان نے اپنی زمین، پسینہ، فصل اور صحت سے ادا کی ہوتی ہے۔ صرف ذائقے اور مقدار ہی نہیں، بلکہ غذائیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک تحقیقی جائزہ بتاتا ہے کہ جب فصلیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی میں اگتی ہیں تو ان میں پروٹین، آئرن اور زنک کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
یعنی ایک ایسا معاشرہ جو پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہے، مزید کمزور ہو رہا ہے۔ بچے سست اور کمزور پیدا ہو رہے ہیں، خواتین میں خون کی کمی بڑھ رہی ہے اور ذہنی نشوونما پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔مسئلہ صرف کسان یا صارف کا نہیں، بلکہ ریاست کا ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کی کوئی جامع پالیسی نہ بنی، اگر زراعت کو جدید ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی نظام کے مطابق نہ ڈھالا گیا، تو پاکستان کا زرعی مستقبل شدید خطرے میں ہے۔
بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی ذمے داری صرف حکومت یا اداروں پر ڈال دینا کافی نہیں۔ عوام بھی اس صورتِ حال میں برابر کے شریک ہیں۔ نالوں پر تجاوزات، نکاسی آب کے راستوں میں تعمیرات، کوڑا کرکٹ کو نالیوں میں پھینکنا اور ماحولیاتی بے حسی نے مل کر ان مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ہم میں شعور کا فقدان ہے اور حکومت میں عمل کا۔
موجودہ بحران کسی ایک ادارے کی ناکامی کا نتیجہ نہیں بلکہ پورے انتظامی ڈھانچے کی اجتماعی ناکامی ہے۔ وفاقی حکومت کی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی جامع و ٹھوس حکمتِ عملی موجود نہیں۔ صوبائی حکومتیں اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب پانی گلے تک آ جاتا ہے۔
بلدیاتی ادارے یا تو بے اختیار ہیں یا مالی اور افرادی وسائل کی شدید کمی کا شکار۔ نتیجتاً ہر سطح پر ذمے داری کا فقدان ہے اور جواب دہی ناپید۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کا شہری انفرا اسٹرکچر اب ان بارشوں کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا۔ شہروں کی بے ہنگم پھیلاؤ، نالوں پر قبضے، نکاسی کے نظام کی تباہ حالی اور ہنگامی صورتحال میں مؤثر اقدامات کا فقدان ہر سال تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ اس ضمن میں صرف فوری امدادی اقدامات کافی نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر، طویل المدتی، اور پائیدار حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، نکاسی آب کے نظام کی از سرِ نو تعمیر کی جائے۔ نالوں کی باقاعدہ صفائی، بارش سے قبل شہری علاقوں کی مکمل تیاری اور ایسے علاقوں کی نشاندہی جہاں خطرہ زیادہ ہو، ازحد ضروری ہے۔
شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی تحفظ کو مرکزی حیثیت دی جائے۔ بلدیاتی اداروں کو بااختیار اور خود مختار بنایا جائے تاکہ وہ مقامی سطح پر فوری اور مؤثر اقدامات کر سکیں۔ وفاقی و صوبائی سطح پر ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے اداروں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی، جی آئی ایس، سیٹلائٹ مانیٹرنگ اور پیشگی انتباہی نظام کو مؤثر بنایا جائے تاکہ کسی ممکنہ خطرے کی صورت میں بروقت عوام کو خبردار کیا جا سکے اور ضروری اقدامات کیے جا سکیں۔ ان اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور کوآرڈی نیشن کو یقینی بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے لیے قومی سطح کی مہمات چلائی جائیں۔ اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں ماحولیاتی تعلیم شامل کی جائے۔ میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز اور مذہبی رہنما اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں عوام کو یہ سمجھانا ہوگا کہ ماحولیاتی مسائل صرف حکومتی یا ادارہ جاتی نہیں، بلکہ ان کا براہِ راست تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہے۔
بارش کے بعد ازالے کے ضمن میں بھی ہماری پالیسی بے سمت دکھائی دیتی ہے۔ متاثرہ افراد کو صرف خشک راشن یا چند ہزار روپے دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ایک ایسا فریم ورک وضع کیا جائے جس کے تحت متاثرین کی بحالی، مکانات کی مرمت، کاروباری نقصانات کا تخمینہ اور نفسیاتی امداد کو باقاعدہ اور مربوط طریقے سے انجام دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی، بجلی، پانی، گیس کی بحالی کے لیے ہنگامی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو فوری طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں۔
اس سارے منظرنامے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی چیلنج ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی اشتراک اور تعاون بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالمی اداروں، ترقیاتی تنظیموں اور موسمیاتی ماہرین کے ساتھ مل کر ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ریزیلینس پلان مرتب کرے جو نہ صرف بارشوں بلکہ دیگر ماحولیاتی خطرات جیسے خشک سالی،گرمی کی شدید لہر اور گلیشیئر پگھلنے جیسے مسائل کا بھی حل پیش کرے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں، ترجیحات اور رویوں کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔ ہر بار تباہی کے بعد رونا دھونا کافی نہیں۔ ہمیں خود کو ایک ذمے دار قوم ثابت کرنا ہوگا۔ حکومت، ادارے، اور عوام، تینوں کو مل کر اس مسئلے کے حل کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ جب تک ہم اجتماعی طور پر اس بحران کا ادراک اور اس کے حل کے لیے عملی اقدامات نہیں کریں گے، تب تک ہر بارش ہمارے لیے ایک نیا طوفان لے کر آئے گی اور ہم اسی طرح پانی میں ڈوبی ہوئی امیدوں کے ساتھ صرف سوال دہراتے رہیں گے کہ ازالہ کون کرے گا؟