سیاسی مفاد پرستی میں سب ایک

حکومت میں آنے اور اپوزیشن میں نمایاں رہنے کے لیے سیاست میں رہنا ضروری ہے


[email protected]

تجزیہ کاروں کا تجزیہ ہے کہ ملک میں جس طرح کی حکومت ہے، اسی طرح کی اپوزیشن بھی ہے۔ موجودہ حالات کا سو فیصد درست تجزیہ پیش ہے جس سے ثابت ہو گیا کہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے موجودہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ایک ہیں جنھیں ان کے اصل سربراہ نہیں کوئی اور ہی چلا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فارم 47 والوں کے پاس ہے تو چل کہیں اور سے رہی ہے۔ یہی حال اصل اپوزیشن پی ٹی آئی کا ہے جس کا سربراہ جیل میں ہے تو ان کے نام پر پارٹی اوروں کے کہنے پر چل رہی ہے اس لیے دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں اپنی مرضی نہیں دوسروں کی مرضی پر چل رہے ہیں اور حالات یہ حقیقت ثابت بھی کر چکے ہیں کہ دونوں کی اپنی اپنی سمتیں ہیں مگر انھیں چلانے والا اور ہی ہے۔

بانی پی ٹی آئی دو سال سے جیل میں ہیں اور ان سے بہنیں اور وکلا ملاقاتیں کرکے آتے ہیں اور ہر کوئی باہر آ کر اپنے سیاسی مفاد کے لیے مختلف بیانات جاری کر کے نمبر بڑھانے میں مصروف ہے۔

بانی کی بہنیں اپنے حقیقی بھائی سے اپنے خون کے رشتے کے باعث ملنے جاتی ہیں مگر باہر آ کر بانی کی بہن سیاستدان کی طرح بانی کی دی گئی ہدایات پر سیاسی بیانات دیتی ہیں اور وہ میڈیا میں آ آ کر سیاستدان بن گئی ہیں۔

آئے دن میڈیا سے ملنے والی شہرت کی وجہ سے بھی ملک میں سیاست ہو رہی ہے اور بانی کے مقدمات کی وکالت کرنے والے اکثر موجودہ وکلا جن کا سیاست میں کبھی نام نہیں سنا گیا تھا وہ اب وکلا سے زیادہ سیاستدان بن گئے ہیں اور بانی سے ملاقات کے بعد باہر آ کر سیاسی بیانات دیتے ہیں جب کہ وہ اپنے موکل سے ملاقات کے لیے وکیل کی حیثیت میں بانی کے خلاف زیر سماعت مقدمات کے سلسلے میں ہدایات لینے جاتے ہیں اور باہر آ کر وہ بانی کے وکیل کے بجائے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی طرح میڈیا کے سامنے آتے ہیں اور سیاسی بیانات دیتے ہیں اور ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ بانی کے خیالات سے میڈیا کو آگاہ کر رہا ہے اور اس طرح وہ میڈیا والوں کا سامنا کرنے کے بعد رات کو مختلف ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں سیاستدانوں کی طرح شریک ہو رہے ہیں اور شہرت حاصل کر رہے ہیں جس سے وہ بھی اب وکیل سے زیادہ سیاستدان بن گئے ہیں۔

جس طرح سیاستدانوں کو میڈیا میں نظر آنے کا خبط ہوتا ہے اسی طرح اب بانی کی ہمشیرہ اور بانی کے متعدد وکیلوں کو ہر روز اور کسی نہ کسی بہانے ٹی وی پر آنے کا شوق ہے جس سے پتا نہیں چلتا کہ بانی کی اصل ہدایات کیا تھیں کیونکہ ہر کوئی بانی کی باتیں اپنے اپنے اینگل سے میڈیا سے شیئر کر دیتا ہے۔

بانی کی بہنیں تو ملاقات کے بعد باہر آ کر میڈیا کو بانی کی ہدایات کا بتاتی ہیں مگر بانی کے وکیل ڈبل فائدے میں ہیں جو ملاقات کے بعد باہر آ کر بانی کی باتیں بتاتے ہیں اور رات کو ٹاک شوز میں اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کرتے ہیں جیسے وہ بانی کے وکیل نہیں پی ٹی آئی کے رہنما ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بنے ہوئے یہ وکلا حضرات ٹاک شوز میں بانی کے مقدمات کے بجائے ملک کی سیاست اور حکومت کے خلاف بیانات پر زیادہ زور رکھتے ہیں کیونکہ سیاسی ورکرز ہی نہیں بلکہ سیاسی شعور رکھنے والے لوگ حکومت کی مخالفت کے سیاسی تجزیے زیادہ سنتے اور پڑھتے ہیں جب کہ وزیروں کے بیانات اخبارات میں چھپتے تو ہیں مگر لوگ انھیں پڑھنے کی جانب زیادہ دھیان نہیں دیتے کیونکہ ان میں حکومتی تعریفوں اور چاپلوسیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا لوگ حکومت پر تنقید اور مخالفانہ بیانات دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔

بانی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے 5 اگست سے تحریک شروع کرنے کا بانی کی طرف سے میڈیا کو بتایا تھا مگر بانی کے وکیل نعیم حیدر کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے تحریک کا آغاز ہو چکا ہے جب کہ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے نوے دن کا چیلنج دیا ہے اور اکیانوے دن سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔دیکھیے اب کیا ہوتا ہے۔

وزیر اعلیٰ کے پی کی بانی سے ملاقاتیں کم ہوتی ہیں کیونکہ انھیں بانی کی رہائی یا پی ٹی آئی کی تحریک سے زیادہ اپنی حکومت بچانے کی فکر زیادہ ہے اسی لیے انھوں نے کہہ دیا ہے کہ ’’ اگر میری کے پی کی حکومت گرائی گئی تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ جس کا مطلب یہ کہ بعد میں بانی جانے یا پی ٹی آئی، میں سیاست میں ہی نہیں ہوں گا جب کہ ایسا کچھ بھی ہوتا نہیں ہے کیونکہ لوگ سیاست میں آتے ہی اقتدار کے لیے ہیں اور سیاست چھوڑ کر اقتدار میں آنے کا چانس ہی ختم ہو جاتا ہے۔حکومت میں آنے اور اپوزیشن میں نمایاں رہنے کے لیے سیاست میں رہنا ضروری ہے اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی جیسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی سیاست تو ہے مگر وہ کسی اور کے کہنے پر چلائی جا رہی ہے۔

حکومت کو عوام کی فکر ہے نا اپوزیشن کو، کوئی عوام کی بات نہیں کر رہا۔ حکمرانوں کو غیر ملکی دوروں سے فرصت نہیں اور اپوزیشن کو عوام کو درپیش مسائل خصوصاً مہنگائی تک کی کوئی فکر نہیں، دونوں کے نزدیک مفاد پرستانہ سیاست کی زیادہ فکر ہے۔

مہنگائی اور بے روزگاری حکومت کا اور بانی کی رہائی پی ٹی آئی کا مسئلہ ہے ہی نہیں ۔ دوسروں نے حکومت دلا دی تھی تو اب زیادہ سے زیادہ سیاسی و مالی مفادات حاصل کرنا اب حکومت کی ضرورت ہے اور پی ٹی آئی والوں کی ضرورت بانی کا جیل میں رہنا اور علی امین گنڈا پور کی ضرورت کے پی حکومت بچانا ہے اس طرح تینوں کی مفاد پرستانہ سیاست چل رہی ہے، میڈیا پر نمایاں بھی ہو رہے ہیں عوام کی فکر کسی کو نہیں۔

مقبول خبریں