کتھا ایک ماہی گیر کی

طالب نے ایک سندھی اخبارکے لیے اردو میں یہ مضامین تحریر کیے ہیں جو اب پاکستان فشر فوک فورم نے کتابی شکل میں شایع کیے ہیں



طالب کچھی نہ دانشور ہیں نہ ادیب ہیں، وہ بنیادی طور پر ماہی گیر اور سماجی کارکن ہیں۔ طالب نے دو جماعتوں کے بعد اسکول کو الوداع کیا اور اخبارات خاص طور پر فلمی اخبارات کو پڑھ کر لکھنا سیکھا۔ طالب کچھی کی کتاب ’’ کتھا ایک ماہی گیر کی‘‘ بحیرئہ عرب میں ہزاروں برسوں سے ماہی گیری کرنے والوں کی داستانوں پر مشتمل ہے مگر طالب کی یہ کتاب ماہی گیروں کی زندگیوں کے واقعات تک محدود نہیں بلکہ سندھ کی تاریخ، پولیس کی روایتی لوٹ مار اور فلمی دنیا کے اداکاروں کے ذکر کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات اور بحیرئہ عرب میں ماہی گیری کرنے والے دونوں ممالک کے شہریوں پر اثرات کا بھی بھرپور ذکر ملتا ہے۔

 طالب نے ایک سندھی اخبارکے لیے اردو میں یہ مضامین تحریر کیے ہیں جو اب پاکستان فشر فوک فورم نے کتابی شکل میں شایع کیے ہیں۔ یہ کتاب 414 صفحات پر مشتمل ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ کچھی برادری جن کا کراچی کو سنوارنے میں اہم کردار رہا ہے وہ بابا بھٹ، کیماڑی، بلدیہ ٹاؤن، کھوکھرا پار اور ابراہیم حیدری وغیرہ میں رہتے ہیں۔

طالب اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ کیماڑی کے علاقہ پاڑی پاڑہ کے ساتھ ہمارا محلہ گوند پاڑی پاڑہ تھا جس کو تین طرف سے سمندر نے گھیرا ہوا تھا۔ ہمارے تمام محلے کے مکان لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ فیکٹریوں سے سفید گیس نکلتی تھی۔ ان میں کیچڑ مکس کر کے خواتین گھر کے فرش بناتیں جس سے زمین ٹھنڈی رہتی تھی۔‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ جب کشتی کے مقابلے ہوتے تو ریڈیو پر کمنٹری سنتے۔ اسی طرح جب مچھلی بیچ کر گھر آتے تو 10 روپے یا اس سے کم یا زیادہ سے زیادہ14روپے اس فرد کو دیتے جو ابو کے ساتھ شکار کے لیے جاتا تھا۔

4 روپے ابو رکھ لیتے تھے اور 2 روپے میری ماں کو دیتے جو ساری مچھلی گھر گھر جا کر محنت سے بیچتی تھی۔ میری والدہ محنت کش عورت تھی۔ مصنف نے بابا بھٹ امن کے جزائر کے عنوان سے لکھا ہے کہ ان جزیروں میں تین سو سال سے آباد لوگ جن کا پیشہ ماہی گیری ہے ان جزیروں میں بہت سی چھپی ہوئی داستانیں ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں نے وہ کام کیا ہے جو ملکی ادارے نہ کرسکے۔

یہ کراچی کے اصل مالک ہیں مگر ان کے پاس پانی نہ بجلی نہ گیس ہے۔ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، کراچی ماہی گیروں کا ہے، ہم بہت مہمان نواز ہیں، سندھیوں کا دل بڑا ہے۔ سب مل کر لسانیت کو رد کریں اور امن کی بات کریں۔ طالب کھچی کو بچپن سے فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں بہت سے مشہور سینماؤں کے مالکان کا تعلق ماہی گیروں سے تھا۔ شہر کے تمام سینماؤں کے مالک کچھی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب کراؤن سینما کا افتتاح ہوا اور سندھی فلم گھونگٹ لائے ڈے کنوان، جس کے تمام گانے ملکہ ترنم نور جہاں اور محمد یوسف نے گائے تھے۔

 اس فلم سے سینما کا افتتاح ہوا۔ اس وقت سینما بہت پاورفل تھا۔ نئی فلم لگتی لوگوں کا رش اور ٹکٹ کے لیے قطاریں،کھڑے لوگ انتظارکرتے، اگر کوئی شخص قطار سے نکلتا تو سینما کا بدمعاش جو بلوچ یا مکرانی ہوتا ہاتھ میں ہنٹر کی چھڑی زور سے مارتا تھا۔ طالب نے اسکول کو الوداع کہنے کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ میں قرآن شریف پڑھا ہوا تھا۔ بچپن سے فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا، اسی لیے فلمی اخبار پڑھتا اور خریدتا تھا۔ اسکول کے گیٹ کے پاس ایک بک اسٹال تھا جس میں اردو اخبار کے علاوہ انگریزی کے اور گجراتی زبان کے اخبارات آتے تھے۔

اس وقت فلمی اخبارات کے علاوہ فلمی اسٹوری کی کتابیں بارہ آنے کی ملا کرتی تھیں۔ جو فلم ابھی لگتی نہیں تھی اس کی کتاب پہلے بک اسٹالوں پر آجاتی تھی۔ طالب مزید لکھتے ہیں کہ جب سمندرکی بڑی بڑی لہریں پیدا ہوتی تھیں تو اس طرح یہ عربستان سے افریقہ تک بغیر انجن کے سفر کرتے تھے۔ اس وقت کچھ گجرات سے افریقہ کا سفر جس میں کئی ماہ لگ جاتے تھے ستاروں کی سمت سے راستوں میں بارش، ہوا، کڑکتی بجلی ہوتی تھی۔ مصنف نے مشرقی پاکستان پر بنگلہ دیش کے عنوان سے مضمون میں لکھا ہے کہ 70ء کے انتخابات بہت دلچسپ تھے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ایک طلسماتی لیڈر کے طور پر عوامی لیڈر تھے۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب ایک ہیرا تھا۔ ککری گراؤنڈ لیاری میں پیپلز پارٹی کا جلسہ تھا۔ جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ ٹی وی فلم کے اداکار طارق عزیز اور معراج محمد خان جیل سے رہا ہو کر آئے تھے اور اس جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ طارق عزیز نے جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنی فلم افشاں کی شوٹنگ میں حصہ لیا۔ طارق عزیز کے جیل جانے سے فلم کے کچھ حصے رکے ہوئے تھے۔ طالب کی اس کتاب کے مطالعے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سمندری ماہی گیری دنیا کے خطرناک پیشوں میں ایک ہے۔

طالب نے اپنے دبئی کے پہلے سفر کا حال خوب بیان کیا ہے، وہ انڈین فلمیں دیکھنے گئے تھے۔ وہ واپسی میں دبئی سے 50 قیدیوں کو لانچ میں لارہے تھے۔ لانچ میں زیادہ تر بچیاں اور کچھ دیگر شامل تھے۔ جب ایران کے پاس شاہ بندر کے گہرے سمندر میں کنارے سے بہت دور لانچ کا انجن خراب ہوگیا تو قیدیوں نے شور مچانا شروع کیا۔ ایک ناخدا کا بھائی ابوبکر اور ہارون ایک تختہ پر سوار ہوکر سمندر میں اتر گئے اور چند گھنٹوں بعد آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ ادھر سے ایک لانچ آئی اور یہاں لانچ کو باندھ کر کراچی لے آئے۔ ہمارے ساتھی ایران کے پہاڑوں پر پہنچ گئے اور ایران کے فوجیوں نے انھیں پکڑ لیا۔ ایرانی فوج کی ریپڈ فورس جب موقع پر پہنچی تو ہماری لانچ جاچکی تھی۔

 مصنف نے 1977کی پی این اے کی تحریک کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ لانچ کے سفر سے طالب اپنے گھرکیماڑی پہنچے تو یہ علاقہ پی این اے کی تحریک کے ہنگاموںکی زد میں تھا، جس کی بناء پر گھر والے ابراہیم حیدری چلے گئے۔ طالب نے انتہائی محبت سے فشر فوک فورم کے بانی محمد علی شاہ مرحوم کا ذکر کیا ہے۔

اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ طالب نے محض ماہی گیروں کی زندگیوں پر توجہ نہیں دی بلکہ سماجی حالات کا بھی ذکرکیا ہے، وہ مذہبی جلسوں میں جاتے تھے۔ مذہبی کتابوں کا مطالعہ بہت کرنے لگا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مذہبی فرقہ واریت کو حکومت نے عام کیا۔ علماء ایک دوسرے پر تنقید کرتے۔ اسی طرح طالب نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی۔ محمد علی شاہ عوامی تحریک سے دور ہوئے تو طالب نے بھی تحریک سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ ماہی گیر بھی ایک دوسرے کو لوٹتے ہیں۔ طالب نے لکھا ہے کہ کریک سے آگے صبح کا منفرد سورج اوپر جا رہا تھا، سمندر بالکل تھما ہوا تھا۔

ایک بھارتی کشتی ہمارے قریب آئی۔ اس کشتی میں چار افراد سوار تھے۔ اس کشتی کے ناخدا نے روتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ہمارے دو آدمی اغواء کر لیے گئے، ہم مسلمان ہیں۔ بھارت کے کسٹم والے دو آدمیوں کے غائب ہونے کی بناء پر ہم سے کیا سلوک کریں گے۔ ناخدا نے سولجر بازار کے ایک پان والے کا پتہ بھی دیا۔ یہ دو بھارتی ماہی گیر لانڈھی جیل میں لے جائے گئے اور 3 ماہ بعد رہا ہو کر بھارت چلے گئے۔ اسی طرح مائی بھاگی کا ذکر ہے جس کے چار رشتہ دار بھارت میں گرفتار ہوئے، شاید انھیں سزائے موت دی گئی جو عمر قید میں تبدیل کردی گئی۔ مگر اس معاملے کی مکمل تفصیلات بیان ہونی چاہیے۔ طالب نے کچھی برادری کی ملک کے لیے خدمات کو اپنے مضامین میں بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ نواب جوناگڑھ جب پاکستان آگئے تو ان کا خزانہ جوناگڑھ میں رہ گیا تھا۔ حکومت کی نظر جزیرہ بھٹ آئی لینڈ کے 80سالہ حاجی محمد بھٹی پر پڑی۔ اس نے اپنے دو بیٹوں اور کچھ فوجیوں کو ساتھ لیا، سمندر کے راستے جوناگڑھ گیا اور 40 من سونا لے کر آیا اور نواب جوناگڑھ کے حوالے کردیا۔ نواب نے 4 من سونا حاجی محمد بھٹی کو پیش کیا۔ اس نے یہ سونا لینے سے انکارکیا اور 2 من سونا اپنی طرف سے حکومت کے خزانے میں جمع کرایا۔ اسی طرح جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے لیے بیرونی ممالک سے کیمیکل کی ضرورت پڑی تو حکومت کی نظر عبداللہ یعقوب بھٹی پر پڑی۔ اس نے یہ کام کردیا تھا مگر بھٹ آئی لینڈ کا جزیرہ اب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔

ان لوگوں کو نوکری تک نہیں دی جاتی۔ طالب نے لائٹ ہاؤس کے عنوان سے ماہی گیری کے خطرات کے بہت سے واقعات تحریر کیے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کبھی پوری لانچ کا 12دن کا خرچہ 1 ہزار روپے ہوتا تھا۔ اب 15دن ٹرپ کا خرچہ کم از کم 10 لاکھ ہے، اگر تیل کی قیمتیں بڑھ گئی تو ماہی گیری کی صنعت مکمل بیٹھ جائے گی۔ طالب بلدیاتی انتخابات میں کونسلر بن گیا۔ یوں سماجی کاموں کا دائرہ اور بڑھ گیا۔ طالب کی اس کتاب میں تحریر ہے کہ میرپور، آزاد کشمیر، منڈی بہاؤ الدین، ڈیرہ اسماعیل خان، تونسہ بیراج، چشمہ بیراج میں 40 برسوں سے سندھی ماہی گیروں کی بستیاں شامل ہیں مگر یہ بستیاں بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اسی طرح طالب نے بحیرئہ عرب پر دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہمارا سمندر 700 لانچوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ اب سمندر میں 20 ہزار سے زیادہ لانچیں اور کشتیاں موجود ہیں۔

حکومت کی باقاعدہ کوئی پالیسی نہ ہونے سے بہت سے لوگ اس بزنس میں آگئے ہیں جس کی بناء پر مقامی ماہی گیروں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اب ابراہیم حیدری میں زیادہ تعداد غیر مقامی کاریگروں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ابراہیم حیدری میں منشیات پھیل رہی ہے۔ نئی نسل منشیات استعمال کرتی ہے۔ پولیس منشیات فروشوں کی کسی نہ کسی طرز پر سرپرستی کرتی ہے۔ طالب کبھی لانچ میں ماہی گیروں کو نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر سناتے تھے۔ پھر دوستوں سے بحث و مباحثہ کے بعد ترقی پسند ادب کی طرف راغب ہوئے۔ سبطِ حسن اور ڈاکٹر مبارک کی کتابیں رات کو لانچ کے ماہی گیروں کو سنانے لگے۔

مقبول خبریں