حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے شراب کے بارے میں دس افراد پر لعنت فرمائی: نچوڑنے والا۔ نچڑوانے والا، بنانے والا۔ پینے والا۔ اس کو لاد کر لانے والا۔ اور جس کے لیے لائی جائے۔ اور پلانے والا۔ اور اس کو بیچنے والا۔ اس کو خریدنے والا۔ اس کی آمدنی کھانے والا۔ اور اس شخص پر جس کے لیے خریدی گئی۔ (ترمذی)
شراب کو نشہ آور ہونے کی وجہ سے حرام کیا گیا ہے اس لیے رسول اﷲ ﷺ نے قانون ارشاد فرمایا: ’’ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔‘‘ لہٰذا دور جدید کی ہر طرح کی منشیات حرام ہیں۔
اہل عرب شراب کے عادی تھے چناں چہ شریعت اسلام نے شراب کو درجہ بہ درجہ حرام کیا اس لیے کہ عمر بھر کی عادت خصوصاً نشہ کی عادت چھوڑنا انسانی طبیعت پر انتہائی مشکل اور مشقت والا کام ہے۔
عربی محاورہ کا مفہوم ہے: ’’کسی عادت کا چھڑانا شیر خوار بچے کو ماں کے دودھ سے چھڑوانے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ کی گلیوں میں جب یہ اعلان کرایا کہ شراب حرام کر دی گئی ہے تو جس کے ہاتھ میں جو برتن شراب کا تھا اس کو وہیں پھینک دیا، جس کے پاس شراب کا جام بھی تھا اس کو گھر سے باہر لا کر توڑ دیا۔ منادی کی آواز کان میں پڑتے ہی سب شراب گرا دی گئی۔ جام و سبو توڑ دیے گئے۔ مدینہ میں اس روز شراب اسی طرح بہہ رہی تھی جیسے بارش کا پانی اور مدینہ کی گلیوں میں طویل عرصہ تک یہ حالت رہی کہ جب بارش ہوتی تو شراب کی بو اور رنگ مٹی میں نظر آتا۔
شراب کی حرمت کے حکم پر مسلمانوں کے عمل کا ایک نمونہ سامنے آگیا جسے پیغمبرانہ تربیت کا بے مثال اثر کہنا چاہیے۔ یہ ذہن سازی کا شان دار نتیجا ہے۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ نشہ کی عادت چھوڑنا انتہائی دشوار ہوتا ہے اور عرب میں اس قدر رواج تھا کہ چند گھنٹے بھی شراب کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے لیکن ایک اعلان کی آواز آتے ہی سب کے مزاج بدل گئے، ان کی عادتوں میں انقلاب برپا ہوگیا، چند لمحے پہلے جو چیز انتہائی مرغوب تھی اب وہی چیز انتہائی مبغوض بن گئی، حرام اور ناپاک ہوگئی۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی نشہ اور منشیات کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے بل کہ شور برپا ہے، ماہرین صحت، سماجی اصلاح کرنے والے تنظیمیں بنا رہے ہیں، کانفرنسوں کا انعقاد ہو رہا ہے کیوں کہ انھیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ منشیات سے بے شمار اور انتہائی مہلک بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ نشر و اشاعت کے نت نئے ذرایع جو ترقی یافتہ دور میں انقلاب کا اہم ذریعہ سمجھے جاتے ہیں یہ تمام منشیات کے خلاف بول رہے ہیں، اپنے تئیں جہاد کر رہے ہیں لیکن بات بنتی نظر نہیں آتی۔
اس لیے کہ رسول اﷲ ﷺ کے طریقے اور دور جدید کے طریقے میں ایک بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ شریعت اسلام نے صرف قانون کو قوم کی اصلاح کے لیے کبھی کافی نہیں سمجھا بل کہ قانون سے پہلے ان کی ذہنی تربیت کی عبادت، پرہیزگاری اور فکر آخرت کے کیمیاوی نسخوں سے ان کے مزاج میں ایک انقلاب پیدا کر کے ایسے افراد پیدا کیے جو رسول اﷲ ﷺ کی آواز پر جان و مال سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں، ذہنوں کو ہم وار کرنے کے لیے بے شک اب بھی بہت زور لگایا جا رہا ہے لیکن زور میں ہر طرح کا شور ہے مگر فکر آخرت اور احکام الٰہیہ کا احساس اُجاگر کرنے کا عزم نہیں ہے۔
وجوہات تلاش کی جائیں کہ آخر منشیات کا طوفان کیوں آیا ؟ نوجوان نسل ذہنی دباؤ اور پریشانیوں کا مقابلہ نہ کر سکی تو ادھر آگئی، کیا ان کو ذہن نشین نہیں کر وایا گیا کہ اسلام نے ہمیں اطمینان قلب کے لیے ذکر الٰہی سکھایا ہے۔کہیں ماں باپ اولاد سے غافل تو نہیں ہوگئے، جس کے نتیجے میں یہ دن دیکھنے کو ملا، جب کہ رسول اﷲ ﷺ نے ماں باپ کو اولاد کی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا لوگوں کو حرص اور لالچ کے اندھے کنوئیں میں گرنے سے بچانے کے لیے اسلام نے زریں اصول نہیں سکھائے ؟
دور جدید میں احکام اسلام کی روشنی میں ذہن سازی کے ساتھ اس دور کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے منشیات کے تاجروں کے لیے سخت سزائیں مقرر کی جائیں اور پھر اس میں بلا امتیاز فوری کارروائی کر کے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے زمانہ میں، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اور حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں شراب کا نشہ کرنے والے پایا جاتا تو اس کو لوگ ہاتھوں اور جوتوں سے مارتے اور چادروں کے کوڑے بنا کر مارتے۔ کھجور کی ٹہنیوں سے مارا جاتا، حضرت عمرؓ نے بڑھتی ہوئی بیماری کو دیکھتے ہوئے چالیس کوڑوں کی سزا مقرر کی، جب شراب پینے والوں کی تعداد بڑھی تو اسّی کوڑوں کی سزا مقرر کی۔
غور فرمائیے! عام لوگوں کا منشیات کیے عادی افراد کو جوتوں سے مارنا اور کھجور کی ٹہنیوں سے مارنا، عوام کا منشیات سے نفرت آمیز رد عمل تھا۔ دورِ حاضر میں منشیات کے استعمال نے قوم کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، آج کوئی شخص اپنی اولاد کو اس جہنم میں دھنسنے سے بچانا چاہتا ہے تو اسے ابھی سے بچوں کی دینی تربیت کا خیال رکھنا چاہیے، بچوں کو زیادہ وقت گھر سے باہر نہ رہنے دے، درس گاہ اور دوستوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے، محض اچھا کھلانا، پلانا اور پہنانا اور اچھی درس گاہ میں داخل کرا دینا ہی تربیت نہیں ہوتی بل کہ انھیں اچھے برے کی تمیز سکھانا بھی ضروری اور اہم ہوتا ہے۔
معاشرے کے ذمے دار افراد منشیات کے عادی افراد کو علاج گاہوں تک پہنچانے کی بھرپور سعی کریں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کے کاروبار میں ملوث افراد چاہے وہ کسی بھی درجے میں ملوث ہوں کو سخت سزا دلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ عموماً یہ دیکھنے میں آیا کہ ماں باپ اور قریبی عزیز و اقارب پہلے منشیات کے عادی افراد کی حرکتوں پر پردے ڈالتے ہیں، ان کی بے جا فرمائشوں کو پورا کرتے ہیں لیکن معاملہ حد سے آگے گزر جانے پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، لہٰذا اس معاملہ میں قطعاً کوتاہی نہ کی جائے ورنہ یہ سب اہل معاشرہ، والدین، عزیز و اقارب اﷲ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔
آج کے دور میں منشیات کے عادی افراد کے لیے جدید ترین علاج گاہیں اور رفاہی ادارے کام کر رہے ہیں جہاں جدید ترین نفسیاتی طریقوں اور ادویات سے اس کا مکمل علاج کیا جاتا ہے لہٰذا جہاں کہیں ایسا مریض ملے اسے علاج گاہ تک پہنچانے کی بھر پور سعی کی جائے۔ جس طرح منشیات کو پھیلانے، اس کے استعمال کرنے اور اس کے کاروبار میں ہر شخص ارشاد نبویؐ کے مطابق ملعون ہے یقیناً اسی طرح منشیات کے انسداد کے لیے ہر مرحلہ میں تعاون کرنے والا شخص اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا مستحق ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ پوری دنیا کو خصوصاً پاکستان کو اس غلیظ ترین لعنت سے پاک فرما دے اور اس کے کاروبار میں ملوث ہر شخص کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین