حادثات اور بے قدری

ملک میں بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی کمی ہے جن میں انسانیت اور ہمدردانہ جذبہ موجود ہے


[email protected]

کسی شاعرکا شعر ہے کہ حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا، لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔ یہ شعر موجودہ دور میں سو فی صد درست ہے اور لوگ پہلے حادثے سے متاثر ہونے والے کی بلاامتیاز مدد کرتے تھے اور اسے قریبی اسپتال پہنچا دیتے تھے جہاں اسپتال والے پہلے پولیس کے پاس جانے کا کہتے اور اگر کوئی پہلے پولیس سے رابطہ کرتا تو پہلے اسے پولیس کی تفتیش کا سامنا کرنا پڑتا جیسے وہی حادثے کا اصل ذمے دار ہو۔

اسپتالوں میں بھی اب بے حسی اتنی عام ہو چکی ہے اسپتالوں کا عملہ زخمی پر توجہ ہی نہیں دیتا پھر یہ سلسلہ عام لوگوں کو بھی بے حس بنا گیا کیونکہ ہر شخص جلد بازی کا شکار ہو گیا اور اسے اگر سڑک پر حادثہ نظر آیا اس نے وہاں ٹھہرنے کے بجائے گزر جانے ہی کو ترجیح دی کہ کون اسپتال اور پولیس والوں کو جوابات دے گا۔

سارے لوگ ہی بے حس نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا احساس رکھنے والے بھی ابھی زندہ ہیں مگر ان سے زیادہ اب تماشہ دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور جہاں کوئی حادثہ نظر آتا ہے وہاں زخمی کی فوری مدد کرنے والوں سے زیادہ تعداد تصاویر اور وڈیوز بنانے والوں کی ہوتی ہے جو زخمی یا زخمیوں کی فوری طبی امداد میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔

گزشتہ دنوں وادی سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا وہاں بھی بے حسی کا منظر زیادہ نمایاں تھا جہاں سیاحوں کی فیملی مدد کے لیے پکار رہی تھی وہاں دریا کنارے کھڑے لوگوں میں بعض تماشہ دیکھ رہے تھے اور ٹچ موبائل رکھنے والے دریا میں پھنسے لوگوں کی وڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے رہے کہ حکومتی کانوں تک صبح سویرے یہ خبر پہنچے اور کوئی مدد کو آئے۔

دریا کنارے جو ہوٹل والے موجود ہوتے ہیں وہ سیاحوں کو لوٹنے کے لیے ہوتے ہیں، دریائی پانی میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لیے نہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی انتظام ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں کسی کی مدد کریں کیونکہ وہاں ان کا مقصد کاروبار ہوتا ہے پھنسے ہوئے افراد کو بچانا وہ حکومت کی ذمے داری سمجھتے ہیں جن کا کام لوگوں کی فوری مدد ہوتا ہے مگر دریائے سوات کے کنارے دریا میں پھنسے متاثرین کی مدد کے لیے پولیس پہنچی نا انتظامیہ حرکت میں آئی۔ پانی بڑھتا رہا جس کی لپیٹ میں آ کر مرد و خواتین اور بچے چیختے رہے کہ کوئی ہماری مدد کو آ کے ہمیں بچائے۔

وہ آسمان پر سرکاری ہیلی کاپٹر کی راہ تکتے اور دریا برد ہوتے رہے جن کے زخموں پر وزیر اعلیٰ کے پی نے یہ کہہ کر نمک چھڑکا کہ ’’ میں متاثرین کو بچانے ٹینٹ لے کر وہاں جاتا۔‘‘ جہاں سب وزیر اعلیٰ کے پی جیسے سنگدل ہی نہیں تھے وہاں انسانیت پر یقین رکھنے والے ہمدرد بھی موجود تھے جنھوں نے سرکاری مدد کا انتظار کیے بغیر خود لوگوں کی مدد کی۔ دریائے سوات کے قریب انسانیت سے محبت کرنے والا بہادر محمد بلال تھا جو رضاکارانہ طور پر کسی ہنگامی صورت حال میں متاثرین کی مدد کے لیے ریسکیو 1122 کے عملے سے بھی پہلے فوری مدد کے لیے پہنچ جاتا ہے۔

سرکاری ریسکیو ادارے علاقہ پولیس اور مقامی انتظامیہ تو ہمیشہ تاخیر کرتے ہیں مگر یہ رضاکار محمد بلال اطلاع ملتے ہی سب سے پہلے پہنچنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ جنھوں نے اپنی امدادی کشتی بھی بنا رکھی ہے جنھیں حادثے کی اطلاع دیر سے ملی پھر بھی انھوں نے تین ڈوبنے والوں کی فوری مدد کی۔ محمد بلال کا کہنا ہے کہ اگر مجھے نصف گھنٹہ قبل بھی اطلاع مل جاتی تو انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا تھا۔

محمد بلال جیسے اعزازی خدمات انجام دینے والوں کی قدر حکومتیں کم ہی کرتی ہیں مگر محمد بلال کی کارکردگی کی قدر پاکستان جرنلسٹس ایسوسی ایشن سوات نے کی اور محمد بلال کے اعزاز میں ایک تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا جس میں معززین شہر، تاجروں، سرکاری حکام اور صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور متاثرین کی فوری مدد پر انھیں سراہا۔ تاجروں نے بھی محمد بلال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ دوسروں کو بھی محمد بلال کی تقلید کرنی چاہیے۔کے پی حکومت نے اس سلسلے میں انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جسے اپنے صوبے کے رضاکار محمد بلال کے کام کی قدر اور حوصلہ افزائی کرنا چاہیے تھی مگر وزیر اعلیٰ کے پی کو سیاسی ڈراموں سے ہی فرصت نہیں وہ سیاست کرنے دو دن لاہور آئے مگر انھیں سیالکوٹ کے وہ افراد یاد نہیں آئے جو ان کے علاقے سوات میں حکومتی فوری مدد نہ ملنے کی وجہ سے اپنی جانوں سے گئے اور ایک لاش تو اب تک برآمد بھی نہیں ہو سکی ہے۔ وزیر اعلیٰ کو مردان کے اپنے صوبے کے ہلاک شدگان بھی یاد نہیں نہ انھیں سوات کے سانحے کے بعد سوات جانے کی توفیق ہوئی اور انھوں نے نمائشی معطلیاں اور تجاوزات کے نام پر انہدامی کارروائیاں ضرور شروع کرائیں جو صرف دکھاوا ہیں، اصل اقدامات پر ان کی کوئی توجہ نہیں۔

ملک میں بدقسمتی سے ایسے لوگوں کی کمی ہے جن میں انسانیت اور ہمدردانہ جذبہ موجود ہے۔ کراچی کی ملیر جیل میں فرار ہونے والے قیدی کی ماں کی قدر سندھ حکومت نے نہیں کی جو اسی روز جیل سے فرار کے بعد گھر آنے والے ملزم بیٹے کو خود جا کر جیل حکام کے حوالے کر آئی تھی۔ حال ہی میں کراچی کے ایک ایمان دار شخص نے سڑک پر پڑے ملے 13 لاکھ روپے اصل مالک کو جا کر واپس کیے جو رقم گم ہونے پر پریشان تھا مگر عوامی اور سرکاری سطح پر ایسے شخص کی کوئی قدر نہیں کی گئی۔

ایسے واقعات کم ہی ہوتے ہیں وگرنہ یہاں تو حادثے کا شکار ہونے والوں کی نقدی اور موبائل بھی محفوظ نہیں اور بے حس لوگ وہاں بھی کام دکھا جاتے ہیں۔ سیاحتی مقامات پر ہمدردی کے طور پر کسی حادثے کی صورت میں متاثرین کی حکومت سے پہلے مدد کرنے والے افراد کم اور تماشہ دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جن کی بے حسی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے ۔

مقبول خبریں