کراچی:
اسٹیٹ بینک آف پاکستان 30 جولائی کو اپنی مانیٹری پالیسی کااعلان کرنے جا رہا ہے اور اس وقت سب کی نظریں اس فیصلے پر جمی ہیں کہ آیا شرح سود میں مزید کمی کی جائے گی یا اسے برقرار رکھا جائے گا۔
ماہر معیشت کے طور پر میری رائے میں موجودہ حالات میں شرح سود کو تبدیل نہ کرنا ہی دانشمندی ہے، پاکستان نے حالیہ مہینوں میں شرح سود میں نمایاں کمی دیکھی ہے ، جو 22 فیصد سے گھٹ کر مئی 2025 میں 11 فیصد تک آ چکی ہے۔
یہ صرف کمی نہیں بلکہ پالیسی میں ایک واضح تبدیلی ہے۔ اگرچہ اس سے قرض داروں کو ریلیف ملا اور معیشت کو سہارا دیاگیا لیکن اس کے اثرات زمین پر آنے میں وقت لگتا ہے۔
مہنگائی میں حالیہ سال بہ سال کمی بنیادی طور پر "بیس ایفیکٹ" کی وجہ سے ہے، نہ کہ کسی بنیادی بہتری کی وجہ سے۔ توانائی نرخوں میں ممکنہ اضافہ، عالمی اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ترسیلات زرکی مراعات میں کمی جیسے عوامل آئندہ مہینوں میں مہنگائی کو دوبارہ 7 سے 9 فیصدکی حد میں لے جا سکتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا مہنگائی کا طویل مدتی ہدف 5 سے 7 فیصد ہے، جسے حاصل کرنے کیلیے حقیقی شرح سودکو مثبت 3 سے 5 فیصدکے درمیان رکھنا ضروری ہے تاکہ درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے، کرنسی کو مستحکم رکھا جا سکے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول کیا جا سکے۔