حالیہ بارشوں نے ان حقیقتوں کو واضح کردیا جو ہم اور ہم جیسے بہت سے دوست ایک عرصے سے باورکرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا میں ان چھ یا سات ممالک میں سے ایک ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بے حد متاثر ہے۔
ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت تیاریاں کرتی ہے تاکہ بروقت ممکنہ خطرات سے فوری طور پر نمٹا جا سکے، لیکن ہم ان خطرات سے نمٹنے کے بجائے ان کو دعوت دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا،کشمیر اورگلگت بلتستان میں جنگلات اور درختوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔
انھیں بے دردی سے کاٹا کیا جا رہا ہے۔ درخت جو پہاڑوں کو مضبوطی سے جوڑے رکھتے ہیں، ان کے کاٹے جانے کے بعد، تھوڑی بارش کے آنے سے لینڈ سلائیڈنگ ہو جاتی ہے۔ دنیا میں لکڑی کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، یقیناً وہ لکڑی ہمارے ملک سے اسمگل کی جاتی ہوگی۔
پتا یہ چلا کہ ملک بھر کے شہروں میں گدھوں کا گوشت،گائے کا گوشت بنا کر بیچا جا رہا ہے۔ اب یہ کیسے پتا کیا جائے کہ ان بارشوں کی مچائی ہو ئی تباہی جو کہ یقینا پہلے کے مقابلے میں شدید ہیں، اس میں ہماری کوتاہیوں کا کتنا عمل دخل ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلیوں سے بڑی تیزی سے تباہیاں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف اتنی ہی تیزی سے جنگلات اور درختوں کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔
جنگلات اور درختوں کے خاتمے میں ٹمبر مافیا کے مفادات ہیں اور ان کے مفادات کو تحفظ دینے والے ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور جب یہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ افسرِ شاہی ان کے ساتھ نہ ہو۔ اسی لیے کوئی پالیسی بن نہیں پاتی اور اگر پالیسی بن بھی جائے تو عمل درآمد نہیں ہوتا۔
ہمارا ملک ایک ایسی اشرافیہ کے ہاتھوں میں ہے جو ان معاملات میں ذرہ برابر حساس نہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کا معیار بھی گرا ہے، ورنہ 1974میں بھی شدید سیلاب آئے تھے اور میں اس بات گواہ ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو مزدوروں کے ساتھ اپنے سر پر تغاری اٹھائے، دریا کے بندوں کے شگاف کو بند کرنے کے لیے مٹی بھر رہے تھے۔
اب کیا ایسا ہوتا ہے؟ سیلاب کا جائزہ لینے کے لیے ہیلی کاپٹر میں دورے کیے جاتے ہیں۔ میں اس بحث میں بالکل نہیں جاتا کہ ایم کیو ایم نے کراچی شہرکوکتنا نقصان پہنچایا لیکن لیاری ایکسپریس جوکہ ان پچیس سالوں کا سب سے بڑا پروجیکٹ تھا وہ مکمل اور فعال ہوا۔ اب شاہراہِ بھٹو کے فعال ہونے کا وقت ہے لیکن اس پروجیکٹ کا کچھ حصہ بارشوں کی باعث بیٹھ گیا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس شہرکو کوئی بڑا پروجیکٹ اب تک نصیب نہیں ہوا بلکہ گزشتہ بیس سالوں میں یہ شہر مزید نظر انداز ہوا۔ بیس برس سے ہم کراچی میں K4 project کے بارے میں سن رہے ہیں مگر وہ پروجیکٹ آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔
19 اگست، کراچی میں ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش کا موازنہ گلگت بلتستان کی بارش سے کرنا غلط ہے۔ ہاں، البتہ اس بارش کا موازنہ اسلام آباد اور لاہور کی بارشوں سے کیا جا سکتا ہے۔کراچی میں اتنی بارش نہیں برسی، جتنی تباہی آئی ہے۔ پورا شہر دریا کی تصویر پیش کر رہا تھا، وہ اس لیے کہ شہر کے نالے صاف نہ تھے۔
ان بارشوں کی پیشگوئی پہلے سے تھی۔ عوام بھی آگاہ تھے کہ بارش کا اسپیل کراچی میں داخل ہو رہا ہے مگر خبر نہ تھی تو صرف بلدیہ کو نہ تھی۔ سال2020 کی بارشوں میں شہر کا بیشتر علاقہ ڈوب گیا تھا، اس کی وجہ یہ تھی سڑکوں کے ساتھ پانی کی نکاسی نہ تھی ۔
اسلام آباد میں اس دفعہ بارشیں نسبتاً زیادہ ہوئیں مگر اس شہرکا انفرا اسٹرکچرکراچی سے مختلف ہے۔ اسلام آباد شہرکی بناوٹ ڈھلوان پر ہے جہاں پانی نہیں ٹھہرتا اور ایسی بناوٹ کراچی شہرکی نہیں۔ لاہور کی بات اگر کی جائے تو اس کی بناوٹ میں بھی ڈھلوان نہیں، وہاں بھی شدید بارشیں ہوئیں پھر ایسا بحران لاہور میں کیوں نہیں آیا جیسا کہ کراچی میں پیدا ہوا؟
سیاسی اعتبار سے کراچی شہرکا کوئی والی وارث نہیں۔ اسی بات کو لے کر پروین رحمان نے اشارہ کیا تھا کہ کراچی شہرکے بنے قدرتی نالوں پر قبضہ کر کے رہائش اختیارکی گئی ہے جس کی وجہ سے کراچی ان مسائل کا شکار ہے۔ اس بات پرگولی پروین رحمان کا مقدر بنی۔
کل تک جو اس شہرکی طاقت تھی، وہ آہستہ آہستہ پنجاب منتقل ہوگئی۔ یہاں صحافت کی طاقت تھی، نجی ٹی وی چینلز تھے، میڈیا کا زور تھا جو اب پنجاب منتقل ہو چکا ہے۔ پھر یو ٹیوبرز، سوشل میڈیا اور ٹک ٹاکرزکی اہمیت بڑھی،کیونکہ آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے تو جو بیانیہ پنجاب میں بنتا ہے، پورا ملک اس بیانیے کو لے کر چلتا ہے۔
سندھ میں بلیم گیم کی روایت ہے اور بیچ میں لایا جاتا ہے، اجرک اور سندھ کی ثقافت کے معاملات کو۔ پیپلز پارٹی کے پاس جب کرنے کوکچھ نہ تھا تو انھوں نے اجرک کی آڑ میں گاڑی کی نمبر پلیٹ پر سندھ کی ثقافت کا بھرم رکھا ۔ ایم کیو ایم نے اپنا پرانا کارڈ کھیلا۔ پاکستان کے جھنڈے اور اجرک کو ٹکراؤ میں لے آئے جوکہ ایک فضول حرکت تھی، یہ اعزاز سندھ اسمبلی کو جاتا ہے جس نے سب سے پہلے قراردادِ پاکستان پاس کی۔
78 سال ہم نے خود فریبی میں گزارے ہیں،کیونکہ ہمارے مجموعی بیانیے کی بنیادیں وہ ہی ہیں جو پہلے دن تھیںیعنی دھرتی کی اصل تہذیبوں سے ٹکراؤ میں رہنا۔ جو ان حقیقی تہذیبوں کی بات کرے اس کو غدار کی نظر سے دیکھنا۔ جیسے کی پاکستان کی مسخ شدہ تاریخ کا ٹکراؤ اس دھرتی کی حقیقی تاریخ سے ہے۔
ہمارے حکمران طبقے اور اس کے حاشیہ نشین بیوروکریٹس اور اہل علم نے پاکستان میں موجود اقوام کی حقیقی تاریخ کو خود بگاڑا، غیرملکی حملہ آوروں کو ہیرو بنایا گیا۔ اس غیر حقیقی بیانئے نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد دلی پر قبضے کا نعرہ دیا، شمالی مغرب میں بسنے والی اقوام اور ریاستوں کے بارے میں رومانوی تصورات پیدا کیے۔
اس کا نتیجہ ہے کہ اب غیرملکی حملہ آور بن کر تو نہ آسکے لیکن مہاجرین بن کر سرحد پار کر کے پاکستان آئے ، منشیات، کلاشنکوف، ہر قسم کی اسمگلنگ ، جرائم اور دیگر اخلاقی برائیاں ہمراہ لے آئے۔ فری ڈیوٹی افغان ٹرانزٹ، بغیر ڈیوٹی دیے، فری امپورٹ۔ مسئلہ کہیں اور نہیں ہمارے بیانیے میں تھا اور ہے۔ یہ بیانیہ موجودہ اشرافیہ کے مفادات کے عین مطابق ہے اور گڈگورننس اور پاکستان کے عام لوگوں کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہے۔
ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے جو ہاتھ جڑے ہوئے ہیں، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان کی تاریخ اور ثقافت کو قومی دائرے سے الگ رکھنا ہے۔ یہ ہماری روایت ہے کہ اسلام آباد میں جو بھی بین الاقوامی مہمان آتے ہیں، ان کو تحفے کو طور پر اجرک پیش کی جاتی ہے۔
سندھی ٹوپی بھی پہنائی جاتی ہے۔ 17 سال پہلے کسی نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ پاکستان میں ایرانی صدرکو سندھی ٹوپی کیوں پہنائی گئی ہے۔ اس اعتراض کے بدلے میں سندھ میں کلچر ڈے کو متعارف کروایا گیا جو روایت آج بھی قائم ہے اورکراچی میں اس دن کو بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے۔
کراچی میں تمام قومیں پختون، بلوچ، پنجابی سب کلچر ڈے کو مناتے ہیں جوکہ ایک خوش آیند بات ہے۔ یہ تمام ثقافتیں ہماری اپنی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ انڈس سولائیزیشن کی تاریخ ہے، جو ان چار اکائیوں کی تہذیب و تمدن، زبان، تاریخ اور ثقافت ہے۔
وزیرِ بلدیات نے کہا کہ چاند کی چودھویں رات کو پانی سمندر کے اندر نہیں جاتا جب کہ انیس اگست کو چاند کی 24 تاریخ تھی۔ مطلب کہ پانی تو تھا باقی رہی بات چاند کی چودھویں رات کی اس دلیل کو فزکس نہیں مانتی، نہ ہی کوئی عدالت مانے گی۔ ہمارے ان پڑھ اور معصوم لوگ شاید ایسی بات پر یقین کر لیں۔
سندھ بربادی کا شکار ہے، ادارے زوال پذیر ہیں۔ ان بیس سالوں میں صحت اور تعلیم کے شعبوں کی تباہی ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی اجرک کی نمبر پلیٹ رائج کرسکتی ہے، ٹوپی اور ثقافت کارڈ کھیل سکتی ہے، جب کہ دوسرے لوگ لسانی سیاست کا سہارا لے سکتے ہیں اور اس کھیل میں کراچی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ بارش کا ہو نا باعثِ رحمت نہیں، باعثِ زحمت بن چکا ہے۔
انیس اگست کی رات کو میں بھی سفر میں تھا۔ حیدرآباد سے واپسی پر ایئر پورٹ کے قریب میری گاڑی پانی میں پھنس گئی، جان پر بن آئی۔ ملیرکینٹ میں ایک دوست کے پاس رات گزارنی پڑی۔ دوسرے دن اپنے گھر پہنچا۔ ایسے ہی کئی واقعات اس رات کے ہوئے۔ لوگ مجبوری میں اپنی گاڑیاں پارک کر کے فٹ پاتھ پر سوئے۔ لوگ اپنے گھروں کو پہنچ نہ سکے اور ان کی امداد لوگوں نے کی، چوروں کی بھی لاٹری لگ گئی۔
بری حکمرانی اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور اس تمام تباہی کی کھلی شکل کراچی ہے۔’’آ دیکھ میری بگڑی ہوئی تصویر موئن جو داڑو میں‘‘ اس منزل تک کراچی کیونکر پہنچا، یہ سوچنا پڑے گا۔