خطے میں امن، جنوبی ایشیا کی ضرورت

افغان سرزمین کو دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی


ڈاکٹر یونس حسنی December 22, 2025

اخبارات میں غیر متوقع طور پر افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کا بیان شایع ہوا ہے کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک پر حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس اعلان پر ایک طرح حیرت ہوئی کیونکہ پاکستان کا یہی مطالبہ تھا کہ پاکستانی علاقے پر افغانی سرزمین سے دہشت گردانہ کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں، ان کا سدباب کیا جائے اور پاکستان کو یقین دہانی تحریری طور پر کرائی جائے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ مگر افغانستان اس تحریری یقین دہانی کے لیے تیار نہیں تھا اور تو اور امیر خان متقی کے دورہ ہندوستان کے دوران افغانستان سرزمین سے پاکستان کے خلاف ایسی کارروائیاں کی گئیں جن سے پاکستان کو سخت نقصان اٹھانا پڑا اور پاکستان دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر جوابی کارروائی پر مجبور ہوا۔ اس طرح دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان انتہائی کشیدگی کی ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوگئی۔

اسی سلسلے میں سعودیہ، ترکیہ اور قطر کے تعاون سے جو بات چیت کا سلسلہ چلا وہ بھی بے نتیجہ رہا اور دونوں برادر ملکوں میں مفاہمت کے معاملے میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ابھی چند دن بھی نہیں گزرے تھے کہ خود امیر خان متقی کا بیان اخبارات کی زینت بنا کہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس اعلان کو سن کر ایک خوشگوار حیرت ضرور ہوئی مگر خیال ہوا کہ اگر یہ تبدیلی اتنی جلدی ہونا تھی تو آخر اس اعلان میں اس تاخیر کی کیا ضرورت تھی اور کیا یہ افغانستان کی طرف سے ایک ایسا اصولی اعلان ہے جس پر آیندہ عمل درآمد جاری رہے گا۔خبر کی تفصیلات معلوم کرنے پر پتا چلا کہ چند روز قبل ہی افغانستان کے 34 صوبوں کے سیکڑوں علما کا ایک اجتماع منعقد ہوا اور اس نے پانچ نکاتی ایک قرارداد منظور کی جس میں موجودہ نظام کی حمایت، علاقائی سالمیت کے دفاع، افغان سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے، افغانوں کی بیرون ملک عسکری سرگرمیوں کی مخالفت اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد و یگانگت پر زور دیا گیا تھا۔

چنانچہ افغان وزیر خارجہ نے افغان علما کرام کے اس فتوے کی بنیاد پر اعلان کیا کہ افغان حکومت اپنی سرزمین سے کسی دوسرے ملک میں عسکری سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتی۔ علما کے مطابق ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی صورت میں اسلامی امارت افغانستان کارروائی کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں امیر خان متقی نے کسی مخصوص ملک کا نام نہیں لیا۔ البتہ یہ وضاحت بھی کی کہ اس سلسلے میں نظام کا تحفظ صرف وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور سیکیورٹی فورسز کی ذمے داری نہیں ہے بلکہ ہر فرد کو اپنا فریضہ انجام دینا ہوگا۔

اس خبر کی تفصیلات سے یہ تو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ امیر خان متقی کے طرز فکر میں جو تبدیلی بظاہر نظر آئی ہے وہ سیکڑوں علما کے کنونشن کے اس فتوے کا نتیجہ ہے جس میں دیگر باتوں کے علاوہ افغان سرزمین کو دوسرے ممالک میں عسکری کارروائی کرنے سے روکنے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ سیکڑوں علما کا اعلان من الحیث القوم ہے جس کو ان کی قیادت بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے دنوں میں افغانستان اپنی اس پالیسی پر کیسے گامزن ہوتا ہے۔

دوسری طرف افغانستان کے پڑوسی ممالک اور روس پر مشتمل ممالک کا ایک اجلاس تہران میں منعقد ہوا جس میں افغانستان سے پھیلنے والی دہشت گردی کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ تہران میں ہونے والا یہ اجلاس بغیر کسی اعلامیے کے اجرا کے اختتام پذیر ہوا۔ ایران کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان، چین، روس، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے نمایندے شریک ہوئے۔ افغان طالبان نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔

انھوں نے اس سلسلے میں موصول ہونے والے دعوت نامے ہی کو سرے سے مسترد کر دیا جس کے باعث ان امور پر کوئی حل نکالنے کے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے۔ البتہ شرکائے اجلاس اس نکتے پر متفق نظر آئے کہ افغانستان سے نکلنے والی دہشت گردی خطے کے لیے نقصان دہ ہے۔ البتہ شرکائے اجلاس دیگر امور میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور اسی وجہ سے مشترکہ بیان جاری نہ ہو سکا۔

اجلاس میں ایرانی مندوب عراقچی نے افتتاحی خطبہ دیا جس میں زور دیا گیا تھا کہ علاقائی امن و سلامتی کے لیے افغانستان کا مضبوط اور مستحکم ہونا ضروری ہے اس لیے افغانستان اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان مکالمہ ضروری ہے تاکہ ان کے درمیان ایک مضبوط اخوتی رشتہ قائم ہو سکے۔ دہشت گرد گروپوں کے خلاف بامعنی کارروائی کے ساتھ ہی خطے کی سلامتی جڑی ہوئی ہے۔اس اجلاس میں پاکستان کی نمایندگی جناب محمد صادق نے کی۔ انھوں نے کہا کہ افغان عوام دہشت گردی کا شکار رہے ہیں اس لیے افغان طالبان کو ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہوجانا چاہیے۔

افغان عوام کے لیے ان کے دوست ممالک کی نیک خواہشات کی روشنی میں دعا کرنا چاہیے کہ امن و آشتی کا سورج طلوع ہوگا اور خطے میں امن کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جاسکے گا۔

مقبول خبریں