سفارتی تعلقات کی بحالی؛ سعودی عرب نے اسرائیل کے سامنے کڑی شرط رکھ دی

سعودی سابق انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل نے اسرائیلی میڈیا سے گفتگو میں نیتن یاہو کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی


ویب ڈیسک December 22, 2025
اسرائیل سے تعلقات کی بحالی فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط تھی، ہے اور رہے گی، ترکی الفیصل

سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل کو دیئے گئے ایک غیر معمولی انٹرویو میں دوٹوک اور واضح پیغام دیا ہے۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق شہزادہ ترکی الفیصل دیگر سعودی حکام کے برعکس اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دینے سے نہ صرف کترائے نہیں بلکہ اپنے مؤقف کو بیان کیا۔

انھوں نے کہا کہ صیہونی ریاست کو تسلیم کرنا تو دور کی بات، سعودی عرب اس وقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر بھی غور نہیں کر رہا ہے۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی صرف اُسی صورت ممکن ہے جب اسرائیل ایک نارمل ریاست کی طرح بین الاقوامی قوانین کے مطابق طرز عمل اختیار کرے اور فلسطینی مسئلے کا منصفانہ حل سامنے آئے۔

اُنھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات اس وقت تک قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطینی مسئلے کا حل دو ریاستی فارمولے کے تحت طے نہیں ہو جاتا۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرے اور ان پر عمل کرے تو پھر سعودی عرب اس کے ساتھ معمول کے تعلقات پر غور کر سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سعودی مؤقف میں نہ کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ کوئی ابہام ہے کہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی کسی بھی ممکنہ پیش رفت کی بنیاد ہے۔

اس موقع پر ترکی الفیصل نے 2002 کے عرب امن منصوبے کا حوالہ بھی دیا، جس کی بنیاد 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کے منصفانہ حل پر رکھی گئی تھی۔

انھوں نے انٹرویو لینے والے اسرائیلی صحافی کو یاد دلایا کہ سعودی عرب نے ماضی میں بھی امن عمل میں حصہ لیا تھا جیسا کہ 1991 کی میڈرڈ امن کانفرنس کے بعد ہوا تھا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ اسرائیل امن کے لیے قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تھا۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کے قتل اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات امن عمل کے ناکام ہونے کی علامت تھے۔

یاد رہے کہ اسرائیل ہمیشہ سے یاسر عرفات کو زہر دیے جانے کے الزام کی تردید کرتا آیا ہے لیکن ٹھوس شواہد کے تمام اشارے صیہونی ریاست تک ہی جاتے ہیں۔

ترکی الفیصل نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں کارروائیاں، شام اور لبنان میں فوجی موجودگی، جنگ بندی معاہدوں سے انحراف اور گریٹر اسرائیل جیسے بیانات اعتماد پیدا نہیں کرتے۔

امریکی دباؤ سے متعلق سوال پر شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ سعودی عرب اپنی خارجہ پالیسی اپنے قومی مفادات کے تحت بناتا ہے اور کسی بھی بیرونی دباؤ کے تحت فیصلے نہیں کرتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان نے خود وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے سامنے واضح کیا تھا کہ دو ریاستی حل کے بغیر اسرائیل سے معمول کے تعلقات ممکن نہیں۔

شہزادہ ترکی نے اس تاثر کو بھی رد کیا کہ 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے سے پہلے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے قریب تھے۔

اس پر ان کا مزید کہا تھا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں اور سعودی عرب کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ فلسطینی مسئلے کے حل کے بغیر اسرائیل کے ساتھ کوئی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔

اپنی گفتگو کے اختتام پر شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ اگر اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم کے بعد کوئی نیا رہنما آتا ہے تو اسے بھی دو ریاستی حل کو تسلیم کرنا ہوگا۔

انھوں نے اسرائیلی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا نہیں لیکن سعودی عرب کا اصولی مؤقف تبدیل نہیں ہوگا۔

 

مقبول خبریں