پاکستان کے سیاسی افق پر چند روز غیر معمولی ہنگامہ خیزی اور فکری انتشار کے حامل رہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک ایک بار پھر ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں فیصلے تاخیر کا شکار ہوں تو نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں۔
انھی حالات میں اسلام آباد اور لاہور میں دو اہم تقاریب منعقد ہوئیں، جن میں ملک کی موجودہ سیاسی، آئینی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی اور سنجیدہ بحث سننے کو ملی۔ ان تقاریب کی اہمیت اس لیے بھی دوچند ہو گئی کہ دونوں میں مختلف سیاسی نظریات، مکاتبِ فکر اور صحافتی حلقوں کی بھرپور نمایندگی موجود تھی۔لاہور میں منعقدہ تقریب معروف سیاسی رہنما خواجہ رفیق شہید کی برسی کے موقع پر ان کے صاحبزادوں سعد رفیق اور سلمان رفیق کی میزبانی میں منعقد ہوئی جو حسبِ روایت ایک فکری اور سیاسی اجتماع کی صورت اختیار کر گئی۔ اس تقریب میں ملک بھر سے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، دانشوروں اور سینئر صحافیوں نے شرکت کی اور کھل کر اپنی آرا کا اظہار کیا۔ مقررین کی گفتگو میں جہاں جذبات کی شدت نمایاں تھی، وہیں حالات کی سنگینی کا ادراک بھی صاف دکھائی دیا۔
ادھر اسلام آباد میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے دو روزہ قومی کانفرنس منعقد کی گئی، جس کا بنیادی مقصد ملک کو درپیش سیاسی بحران پر مختلف طبقہ فکر کے رہنماؤں کے خیالات کو یکجا کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں بھی سیاست اور صحافت سے وابستہ اہم شخصیات نے سیر حاصل گفتگو کی اور اس امر پر زور دیا کہ موجودہ بحران کا حل تصادم، ضد اور الزام تراشی میں نہیں بلکہ سنجیدہ مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم میں پوشیدہ ہے۔
دونوں تقاریب کا مجموعی حاصلِ کلام یہی تھا کہ پاکستان اس وقت جس سیاسی اور معاشی ابتری کا شکار ہے، اس سے نکلنے کے لیے قومی سطح پر مذاکرات کا آغاز ناگزیر ہو چکا ہے۔ لاہور کی تقریب میں مسلم لیگ کا سیاسی رنگ نمایاں تھا۔ سعد رفیق جو ہمیشہ بے باک اور دو ٹوک گفتگو کے لیے جانے جاتے ہیں،انھوں نے اپنی تقریر میں برملا اس حقیقت کی نشاندہی کی کہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے میاں نواز شریف کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں پسِ پردہ گفتگو یا بند کمروں کے فیصلے کارگر ثابت نہیں ہوں گے۔سعد رفیق کے مطابق ملک کی صفِ اوّل کی سیاسی قیادت کو اب کھل کر سامنے آنا ہوگا اور قوم کے ساتھ سچ بولنا ہوگا۔ انھوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں ہر سیاسی بحران کے بعد ایک ہی بیانیہ تشکیل دیا گیاکہ ہر منتخب وزیرِ اعظم سیکیورٹی رسک ہے ۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمیشہ منتخب قیادت ہی غلط اور باقی سب درست ہوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔اپنی گفتگو کے دوران سعد رفیق نے بزرگ سیاستدان نوبزادہ نصراللہ خان کو بھی یاد کیا اور کہا کہ وہ ایسی مدبر شخصیت تھے جو مشکل ترین حالات میں بھی تمام سیاسی قوتوں کو ایک میز پر بٹھا کر جمہوریت کو بچانے کی کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے تھے۔ آج جب ملک شدید سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ پاکستان کو اسی نوعیت کے قومی مکالمے کی شدید ضرورت ہے۔اسی تقریب میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی ایک ایسے میثاق کی بات کی جو کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کے لیے نہیں بلکہ پوری قوم، آنے والی نسلوں اور ریاستِ پاکستان کے مستقبل کے لیے ہو۔ ان کے مطابق اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو آنے والا وقت مزید مشکلات لے کر آئے گا۔
اسلام آباد میں منعقدہ اپوزیشن اتحاد کی کانفرنس کے اختتامی اعلامیے میں حکومت سے مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی گئی۔ اعلامیے میں غیر جانبدار الیکشن کمشنر کے تقرر، شفاف اور نئے انتخابات، آئین و قانون کی بالادستی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات شامل تھے۔ یہ مطالبات اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ اپوزیشن بھی بالآخر سیاسی مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو ناگزیر سمجھنے لگی ہے۔ان دونوں اجتماعات سے ایک بات واضح طور پر سامنے آئی کہ قومی سطح پر سیاسی ڈائیلاگ وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ ملک اس وقت جس سیاسی محاذ آرائی سے گزر رہا ہے، وہ نہ صرف جمہوری اقدار کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ملکی سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔ گزشتہ انتخابات کے بعد سیاسی حالات میں جو بگاڑ پیدا ہوا، وہ وقت گزرنے کے ساتھ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
ملک کا ایک بڑا طبقہ جس نے اپنے ووٹ کے ذریعے ایک سیاسی جماعت پر اعتماد کا اظہار کیا تھا، آج خود کو بے وزن اور بے اختیار محسوس کر رہا ہے۔ اس طبقے کو یہ احساس دلایا گیا کہ اس کے ووٹ کی کوئی قدر نہیں، جس کے نتیجے میں عوام اور ریاستی نظام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہو چکی ہے۔ان حالات میں حکومت نے مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر معیشت کو درست سمت میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں آرہی اور ملکی معیشت عملاً آئی ایم ایف کے سہارے پر کھڑی ہے۔
صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ملک کا سالانہ بجٹ ہو یا عوام کو کسی قسم کا معاشی ریلیف دینا ہو، ہر معاملے میں پہلے آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے آیندہ چند ماہ میں مہنگائی میں اضافے کے انتباہات سامنے آ رہے ہیں۔ مہنگائی کا بوجھ ایک بار پھر عام عوام پر ہی پڑے گا جو پہلے ہی بنیادی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہو چکی ہے تو اسے خوش فہمی یا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
روز بروز بگڑتے سیاسی اور معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ ملک میں سیاسی مفاہمت کا آغاز کیا جائے۔ قومی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو سیاسی انتقام کی روش ترک کر کے ایک ایسے وسیع تر سیاسی میثاق پر متفق ہونا ہوگا جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا ذریعہ بن سکے۔اس مجوزہ سیاسی میثاق میں ملک کے تمام اہم ستونوں بشمول عدلیہ، مقتدرہ اور بالخصوص میڈیاکوشامل کرنا ناگزیر ہے۔
ملکی مسائل کو اجاگر کرنے، مختلف نقطہ نظر کو سننے اور افہام و تفہیم کے ذریعے ان کا حل تلاش کرنے کے لیے ایسی فکری اور سیاسی تقاریب کا تسلسل وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ یہ وہ فورمز ہیں جہاں مختلف نظریات کے حامل افراد بلا خوف و خطر اپنی بات کہہ سکتے ہیں اور کسی بامقصد قومی مکالمے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
دو اہم سیاسی تقاریب نے اس حقیقت کو مزید نمایاں کر دیا ہے کہ ملک کے سنجیدہ حلقوں میں اب تصادم کے بجائے مکالمے کی ضرورت پر اتفاق بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ امر خوش آیند ضرور ہے تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ آوازیں عملی پیش رفت میں ڈھل سکیں گی یا ماضی کی طرح محض تقاریر تک محدود رہیں گی۔ہمارے سیاسی رہنماؤں کو یہ بات سنجیدگی سے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر انھوں نے ایک دوسرے کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا تو اس کا فائدہ کسی تیسرے فریق کو ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں کی باہمی چپقلش سے ہمیشہ جمہوریت کمزور اور غیر جمہوری قوتیں مضبوط ہوئی ہیں۔ اگر آج بھی ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو کل ہمارے یہ ’جید‘ سیاستدان ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور قوم ایک بار پھر ایک نئے بحران کی طرف دھکیل دی جائے گی۔